خوشی کی آرزو کو پا کے محروم خوشی میں نے
خوشی کی آرزو کو پا کے محروم خوشی میں نے
خوشی کی آرزو دل میں کبھی پلنے نہ دی میں نے
وطن کی سر زمیں جس پر لٹا دی زندگی میں نے
وہیں اپنے لئے پائی محبت کی کمی میں نے
جو میری جان کے دشمن تھے ان پر جان دی میں نے
سکھائی یوں بھی اپنے دشمنوں کو دوستی میں نے
سیاست سے فسادوں کا بنا مسکن وطن میرا
جہاں صدیوں دیا پیغام صلح و آشتی میں نے
گل افشاں جو زمیں تھی وہ زمیں اب آگ اگلتی ہے
عجب تعبیر دیکھی حریت کے خواب کی میں نے
سحر کیسی سحر کا ذکر بھی اک جرم ٹھہرا ہے
اندھیری رات کا دیکھا ہے یہ اندھیر بھی میں نے
وہاں مجھ کو مہذب بھی نہ مانا جائے حیرت سے
جہاں تہذیب کی بنیاد رکھی تھی کبھی میں نے
یہ توفیق اپنی اپنی اپنا اپنا ظرف ہے پیارے
مسلسل تو نے کی بیداد پیہم داد دی میں نے
شکستہ پائی سے میں اپنی پیچھے رہ گیا بے شک
مگر تیزی رفتار جہاں تو جان لی میں نے
یہ اب تجھ پر ہے تو قدموں میں رہنے دے کہ ٹھکرا دے
ترے قدموں میں رکھ دی اپنے دل کی ہر خوشی میں نے
یقیناً وجہ بخشش ناز عمر بندگی ہوتا
کیا ہوتا اگر شایان در اک سجدہ بھی میں نے
یہی کچھ کم نہیں کم آگہی کے اس زمانے میں
جہان شعر کو بخشا وقارؔ آگہی میں نے