نیا کلنڈر
فروری پھولوں کی گاڑی پہ سوار آتی ہے
مارچ آتا ہے تو باغوں میں بہار آتی ہے
ہم نے بلا جو گھمایا تو کئی بھاگ لیے
ایک چوکے ہی میں اپریل مئی بھاگ لیے
تیز گرمی نے پسینے میں نہایا ہم کو
جون جولائی نے دو ماہ ستایا ہم کو
یہ خبر لے کے اگست اور ستمبر آئے
امتحانوں میں بڑی شان کے نمبر آئے
یاد کرتے ہیں سبق لیٹے ہوئے بستر میں
لکھنے پڑھنے کا مزہ آتا ہے اکتوبر میں
یاد رہ رہ کے ہمیں دس کا پہاڑا آیا
جب بھی آیا ہے نومبر ہمیں جاڑا آیا
گرم مفلر سے جو کانوں کو چھپایا ہم نے
تالیاں دے کے دسمبر کو بھگایا ہم نے
پھر نئے سال کا مطلب ہمیں سمجھاتی ہے
جنوری سبز دوپٹے میں چلی آتی ہے