نوحہ گر

رومی دروازے کے زینے پر چڑھتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف مسکراکر دیکھا۔ اس طرح ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ساتھ ساتھ چلنے کا یہ ان کا پہلا موقع تھا۔ دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرےکی طرف دیکھا۔


چند روز قبل اس نے بڑی ہمت کرکے رخشندہ کے سامنے شادی کی تجویز رکھی تھی اور اس نے سوچ کر جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، کل اس نے گھنٹہ دو گھنٹہ کہیں تنہائی میں بیٹھ کر باتیں کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور آج وہ دونوں یہاں چلے آئے تھے۔ ان گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں اس کے ذہن میں نہ جانے کیسے کیسے خیالات آئے تھے، نہ جانے کتنے انوکھے اور نادر جملے سوجھے تھے، لیکن اس وقت تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ تمام باتیں اور وہ تمام خیالات ایک ایک کرکے جہاں سے آئے تھے وہیں واپس چلے گئے ہوں۔ آخر اس نے گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے کہا،


’’اس سے پہلے کبھی یہاں آئی ہو؟‘‘


’’ہوں۔‘‘ رخشندہ زینے پر چڑھتے چڑھتے رک گئی اور بولی، ’’ایک بار آئی ہوں۔ امی، باجی دولہا بھائی، اور بہت سے بچے کچے ساتھ تھے لیکن۔‘‘


’’لیکن کیا؟‘‘


’’لیکن یہ کہ آج ایسا لگتا ہے جیسے پہلی ہی بار آئی ہوں۔‘‘


’’کیوں؟‘‘ اجمل نے محض سلسلہ گفتگو جاری رکھنے کے لیے پوچھا۔


’’آیا کرو ادھر بھی۔۔۔‘‘ گنگناتے ہوئے ایک صاحب تیزی سے ان کے پاس سے گزر گئے۔ وہ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مسکرائے بھی۔ اجمل نےان کی طرف گھور کر دیکھا۔ رخشندہ نے اجمل کا موڈ خراب ہوتے دیکھا تو بولی، ’’خواہ مخواہ بور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا بتائیے آپ اس کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ ہم لوگ اس جگہ گھنٹہ بھر سے کھڑے ہوئے باتیں کر رہے ہیں، بھلا کوئی تک ہے۔‘‘


بعد میں تیسری منزل کے ایک جھروکے میں بیٹھے بیٹھے دونوں نے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزار دیا۔ ایک ہی طرح کی باتیں نہ جانے کب تک کرتے رہے۔ رخشندہ اجمل کی باتیں اس محویت سے سن رہی تھی کہ اسے ہوش بھی نہ رہا کہ کب اجمل نے اپنےکوٹ کے کالر سے پن نکال کر دیوار پر اس کا پورا نام کھود دیا۔ رخشندہ پروین۔ اور جب رخشندہ نے، جو اس دوران گردن جھکائے ادھر اُدھر کی باتیں کیےجارہی تھی، گردن اٹھائی اور اس کی نظر اپنے نام پر پڑی تو بولی، ’’یہ آپ نے کیا کیا۔ یونیورسٹی کاکوئی لڑکا دیکھے گا تو فوراً سمجھ جائے گا کہ میں یہاں آئی تھی۔‘‘


’’جی ہاں ضرور سمجھ جائے گا۔ اجمل نے رخشندہ کے ’’خ‘‘ کو ذرا اور گہرا کرتے ہوئے کہا، اس لمبی چوڑی دنیا میں آپ ہی تو ایک رخشندہ پروین ہیں۔ ارے اس نام کی نہ جانے کتنی لڑکیاں ہوں گی۔‘‘


’’پھر بھی۔۔۔ مٹادیجیے نا۔‘‘


’’لیکن مجھ سے تو یہ نہ ہوسکے گا۔‘‘


’’اچھا لائیے تو میں مٹادوں۔‘‘ یہ کہہ کر رخشندہ نے اس کے ہاتھ سے پن لے لیا، اور پھر دھیرے دھیرے اپنا نام کھرچنے لگی۔ اجمل کچھ دیر تو اسے خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر بولا، ’’میں نے تو اتنی محنت سے لکھا تھا، اور تم نے۔۔۔‘‘


’’بات یہ ہے۔۔۔‘‘ رخشندہ نے، جس کے ہاتھ پر اپنا نام مٹانے سے سفیدی کے چھوٹے چھوٹے ذرے پڑ گئے تھے، اپنے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا، ’’بات یہ ہے کہ مجھے دوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھاتے ذرا کم ہی اچھا لگتا ہے۔ میں تو آرام کی زندگی سے تھک گئی ہوں۔ گھر پر تھی تو امی اٹھ کے پانی نہ پینے دیتی تھیں، جب سے ہوسٹل میں آئی ہوں، اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ آزادی کا سانس لے پاتی ہوں۔‘‘


اجمل جو اب تک نہایت اعتماد کےساتھ اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، خود اپنی ہی نظروں میں پہلے کے مقابلہ میں ذرا کم وقعت ہوگیا۔ نائلون کا یہ پتلون جو اس نے دومہینے کے ٹیوشن سے بنوایا تھا اب اتنا چمکدار نہ رہ گیا تھا۔ اس نےابھی تھوڑی دیر قبل سوچا تھا کہ آج اپنی زندگی کے مستقبل کے بارے میں رخشندہ کا آخری فیصلہ معلوم کرلے گا، لیکن رخشندہ اور اس کی سماجی حیثیت کے فرق کے یکایک اظہار نے جیسے اس سے قوتِ گویائی چھین لی، اس نے سوچا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے، لیکن زبان نے ساتھ نہ دیا اور اس نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کے لیے کہا۔


’’ہاں رخشی، تو اس آزادی کو کس طرح استعمال کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘


تخاطب کا انداز اور نام کی اس تبدیلی پر وہ کسی قدر چونکی، لیکن اس حیرت میں خفگی کاکوئی عنصر نہ تھا بلکہ اجنبیت کی دیواروں کا ٹوٹنا اسے کچھ اچھا ہی لگا۔ اس احساس نے اسے اس قدر اپنی گرفت میں لے لیا تھا کہ اسے یہ بھی نہ یاد رہا کہ اجمل نے پوچھا کیا تھا۔ وہ اس خود فراموشی کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اجمل نے اس کی مشکل آسان کردی۔


’’میں نے پوچھا تھا۔۔۔‘‘


لیکن قبل اس کے کہ وہ اپنا جملہ پورا کر پاتا، بائیں طرف کی اوپری برجی سے ایک قہقہہ سنائی دیا اور اس کےساتھ ہی ساتھ دونوجوان برآمد ہوئے۔ وہ دونوں ذرا ہٹ کر ایک جھروکے کے قریب کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو دیوار کی طرف اشارہ کرتے کچھ دکھایا۔ دونوں کچھ دیر وہیں کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے، پھر قہقہے لگاتے ہوئے چلے گئے۔


’’ذرا چلیےتو، دیکھیں۔‘‘ رخشندہ نے غیرارادی طور پر پہلی بار اجمل کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتے ہوئے کہا، ’’دیکھیں وہاں کیا لکھا ہے۔‘‘


اجمل اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ کھسکا۔ اس نے رخشندہ کو بٹھاتے ہوئے کہا، ’’کہو تو میں یہیں بیٹھے بیٹھے بتادوں، وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘


’’اچھا بتائیے، اور اگر غلط ہوا تو؟‘‘


’’جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘


’’نہیں یہ نہیں ، کوئی اور سزا۔‘‘


’’کیوں، کیا یہ سزا کم ہے؟‘‘


’’نہیں۔‘‘ رخشندہ نے کہا۔ ’’بات یہ ہےکہ میں چور کو معاف کردیتی ہوں۔ گرمیوں کی چھٹی میں گھر گئی تھی تو آیا کے لڑکے نے میرے ٹاپس غائب کردیے۔ مجھے بالکل یقین ہے کہ یہ کام اسی کا تھا، لیکن میں نے اس کا کسی سے ذکر بھی نہیں کیا۔ امی سے بہانہ بنادیا کہ ہوسٹل میں کہیں کھو گئے تھے۔ امی نے دوسرے بنوادیے۔‘‘


اجمل نے رخشندہ کے ٹاپس ذرا توجہ سے دیکھے، ان کے بیچ میں زمرد چمک رہاتھا۔ پھر اس نے ہاتھ کی قیمتی گھڑی اور سونے کی انگوٹھی دیکھی اور پھر اپنے کپڑوں اور جوتوں کی طرف دیکھا، لیکن رخشندہ اس کی یہ گھبراہٹ بھانپ نہ سکی اور بولی، ’’اس طرح چور کی سزا سے تو آپ صاف بچ جائیے گا۔‘‘


’’اچھا تو پھر جو سزا چاہو۔۔۔‘‘ اجمل نے اپنی گھبراہٹ چھپانے کے لیے جلدی سے کہا۔


’’سزا میں دوں گی، لیکن ابھی سے بتاؤں گی نہیں۔ منظور!‘‘


’’منظور۔‘‘


’’اچھا تو ذرا یہ بتائیے کہ وہاں کیا لکھا ہے؟‘‘


’’ہاں بھئی نام وام تو بتانے سے رہا۔‘‘ اجمل نے شعوری طور پر غیر رسمی انداز اختیار کیا۔ ’’ان دونوں میں سے کوئی ایک کبھی اپنی منظور نظر کے ساتھ یہاں آیا ہوگا، اور اپنی خواہش لکھ گیا ہوگا۔ ان دونوں کی مسکراہٹوں اور قہقہوں سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی خواہشیں پوری ہوگئی ہیں۔‘‘


’’اچھا دیکھا جائے۔‘‘ رخشندہ نے کہا اور دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔


اجمل کا اندازہ ٹھیک ہی تھا۔ اس جگہ دو عبارتیں لکھی تھیں۔ ایک میں خواہش کا اظہار تھا اور دوسری میں اس کی تکمیل کا، پہلی والی تحریر کسی قدر دھندلی اور مٹی ہوئی تھی جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ شاید دو ایک سال پہلے ہی کی بات ہے۔ اس کے پاس ہی کسی نے موٹے موٹے حرفوں میں کئی جگہوں پر ’’سکینہ سکینہ‘‘ لکھ رکھا تھا۔ دونوں کو تشہیر کی یہ ادا پسند نہ آئی اور وہ آگے بڑھ گئے۔


ایک جگہ لکھا تھا۔۔۔


سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا انساں سے رہتا ہے


اس کے بالکل پاس ہی کسی نے لکھا تھا، ’’رشیدہ کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔‘‘ نیچے لکھا تھا، ’’شہاب۔‘‘ شعر کے اوپر ایک ہی جگہ الگ الگ تحریروں میں لکھا ہوا تھا، ’’شہاب، رشیدہ۔‘‘


’’کہیے بوجھ بجھکڑ صاحب، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ رخشندہ مسکرائی۔


’’بھئی یہ تو۔۔۔ ٹریجڈی ہے ٹریجڈی۔‘‘


’’کیا آپ اس ٹریجڈی پر کچھ روشنی ڈالیں گے؟‘‘ رخشندہ نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی گویا وہ کوئی نہایت سنجیدہ بات کہہ رہی ہو، لیکن پھر فوراً ہی اسے اپنے اس مصنوعی انداز گفتگو پر ہنسی آگئی۔ اجمل نے بظاہر نہایت سنجیدگی سے جواب دیا، ’’روشنی کیا ڈالوں، اندھیروں کی بات ہے۔ ایسا لگتا ہے، محبت کے خواب ناامیدی کے چٹان سے ٹکراکر پاش پاش ہوگئے۔ خود تو محترمہ کہیں چین کی بنسی بجارہی ہوں گی اور یہاں یہ حضرت اب تک اس غم کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘


رخشندہ نے اسے عورت ذات پر حملہ تصور کیا اور بولی، ’’بڑا تیر مار رہے ہیں، دیواروں پر اس غریب کا نام لکھ لکھ کر خوب اپنا اور اس کا نام روشن کر رہے ہیں۔ نہ جانے بے چاری کن حالات میں بیاہ دی گئی ہوگی۔‘‘


اجمل کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ رخشندہ اس بات کو اتنی دور تک لے جائے گی۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ بات اس کے لیے تکلیف کا سبب بن سکتی ہے، وہ بولا، ’’میں نے تو یونہی کہہ دیا تھا۔ میرا مطلب یہ تھوڑی ہی تھا کہ ان حضرت سے وعدہ وعید کرکے اس نے خوشی خوشی شادی رچالی ہوگی۔‘‘ رخشندہ اس کے جواب سے کچھ خجل ہوگئی۔ اصل میں اجمل کو اس طرح شرمندہ کرکے وہ خود پریشان سی ہوگئی تھی۔ اس نے بات کا رخ بدلا اور بولی، ’’میرا مطلب یہ تھوڑی تھا، میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ لوگ ایسی باتیں کچھ لکھتے ہی کیوں ہیں۔ محبت کی یہ تشہیر۔۔۔‘‘


’’تشہر نہیں۔‘‘ اجمل نے کہا۔ ’’وقت کے سمندر میں سے ایک قطرہ نکال کر اسے منجمد کرلینے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔‘‘


’’کیوں کیا وقت کے سمندر میں لہریں اس قدر تیز ہوتی ہیں کہ اس قطرے کو ذہن کے کسی گوشےمیں محفوظ نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہی دیکھو، یہ حضرت تو یہاں ایسےآئے ہوں گے جیسے کوئی اپنے کسی عزیز کی قبر پر جاتا ہے، ہار پھول لے کر۔ اور پھر دو منٹ کے غم کےبعد خوش خوش واپس چلا آتا ہے۔ کسی کی یاد کا چراغ مکان کے باہر کی محراب میں جلانے سے اچھا تو یہ ہے کہ کوٹھری کے طاق میں جلایا جائے۔ وہاں اس کی روشنی میں کوئی اور شریک تو نہ ہوگا۔‘‘ رخشندہ غیرارادی طور پر ’’آپ‘‘ اور ’’دیکھیے‘‘ ترک کر کے ’’تم‘‘ اور ’’دیکھو‘‘ پر اتر آئی تھی۔ ’’اگر ان حضرات نے یہ سب کچھ یہاں نہ لکھا ہوتا تو ہم ان کی دنیا میں کیوں دخل دیتے۔ میں تو اپنے محبت کے شمشان کی آگ سےکسی کو ہاتھ نہ تاپنے دوں گی۔‘‘ رخشندہ نے اپنا جملہ ختم کیا، تو وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہی تھی۔ اجمل بھی خاصا پریشان ہوگیا تھا۔ بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں جاپہنچتی ہے۔ اس نے سوچا۔


’’کیا بات ہے رخشی، تم خواہ مخواہ ذرا سی بات پر اداس ہوجاتی ہو۔‘‘


’’میں اداس کہاں ہوں؟‘‘رخشندہ نےمسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اور داہنی محراب کی طرف جو ہوا اور بارش کی زد سے محفوظ رہنے کی وجہ سے اب بھی سفید تھی، اشارہ کرکے بولی، ’’دیکھیے وہاں شاید آج ہی کل میں کسی نے کچھ لکھا ہے۔‘‘


پینسل کی تحریر صاف نظر آرہی تھی۔ دونوں چند قدم چل کر اس جگہ پہنچے۔ تو وہاں لکھا تھا، ’’ہم دونوں دوسال قبل یہاں آئے تھے۔ یہی دن تھے، اب ہم ایک ہوچکے ہیں تو اس عہد کو دہراتے ہیں کہ ایک دوسرے کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں گے۔‘‘ اس کے آگے نہ کوئی نام تھا نہ پتہ۔


رخشندہ جو تھوڑی دیر قبل محبت کے ببانگ دہل اعلانوں سے چڑ سی گئی تھی یکایک جیسے کھل اٹھی۔ ’’یہ ادا مجھے پسندآئی۔‘‘ اس نے اجمل کی طرف دیکھا۔ ’’ٹھیک ہی تو ہے، اس طرح اپنے دل کی بات لکھ دینے میں تو کوئی حرج نظر نہیں آتا، ہم دونوں بھی کیوں نہ اپنی اپنی خواہشیں یہیں لکھ دیں۔‘‘


’’اپنی اپنی خواہشیں۔‘‘ اجمل نے ’’اپنی اپنی‘‘ پر زور دے کر کہا۔


’’ہوں۔‘‘


اجمل نے رخشندہ کی طرف دیکھا، اور آہستہ سے بولا، ’’کیا ہماری خواہشیں الگ الگ ہیں؟‘‘


رخشندہ جو پہلے اجمل کے اشارے کو نہ سمجھ سکی تھی، بولی، ’’یہ میں نے کب کہا تھا۔ اچھا یہ بتائیے کیا لکھا جائے؟‘‘


دونوں تھوڑی دیر تک اس تاریخی عمارت میں اپنے ساتھ ساتھ آنے کی یاد کے طور پر لکھنے کے لیے کوئی مناسب جملہ سوچتے رہے، کوئی جملہ اجمل سوچ کے بتاتا تو رخشندہ اسے مسترد کردیتی، لیکن یہ ضرور کہتی کہ اس سے اچھی بات ممکن ہے۔ اسی طرح رخشندہ کوئی جملہ چنتی تو اجمل کہتا، اس سے اچھا تو میرا ہی خیال تھا۔ آخر طے ہوا کہ دونوں اپنے اپنے ناموں کے پہلے حروف لکھ کر تاریخ ڈال دیں۔


’’لیکن یہاں نہیں۔ یہاں تو کوئی بھی جگہ خالی نہیں ہے، کسی ایسی جگہ لکھیں جہاں اس سے پہلے کسی نے کچھ نہ لکھا ہو۔‘‘ رخشندہ ہمیشہ سے جدت پسند تھی۔


دوسری منزل کی ان محرابوں اور دیواروں کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں کسی نے کچھ نہ لکھا ہو۔ رخشندہ اور اجمل کسی مناسب جگہ کی تلاش میں دیواروں پر لکھی ہوئی تحریریں اور جملے پڑھتے اور انہیں اپنے تبصرے کا موضوع بناتے رہتے۔ ایک جگہ کسی صاحب نے لکھا تھا،


’’خاقان ابن خاقان، سلطان ابن سلطان والا جاہ ۱۳ جولائی ۱۹۵۶ء کو یہاں تشریف لائے۔‘‘


’’خدا کرے آپ آئندہ یہاں کبھی تشریف نہ لائیں۔‘‘ رخشندہ نے کہا اور دونوں مسکرا دیے۔


ایک دوسری محراب پر لکھا تھا، ’’سب جانیں کہ ہمارا نام قیصر حسین ہے۔‘‘


کسی صاحب نے لکھا تھا۔۔۔


ہم شمع وفا کے پروانے کب جان کی پروا کرتے ہیں
جو آگ لگائی تھی تم نے اس آگ سے کھیلا کرتے ہیں


اسی طرح وہ دونوں دیواروں پر لکھی ہوئی عبارتوں کو پڑھتے اور ان پر تبصرے کرتے رہے لیکن انھیں ایسی کوئی جگہ نظر نہ آئی جہاں پہلے سے کسی نے خامہ فرسائی نہ کر رکھی ہو۔ آخر دونوں ایک محراب کے پاس رک گئے۔ اس پر زیادہ لوگوں نے اپنے نام اور خواہشیں نہیں لکھی تھیں۔ دونوں تھوڑی دیر ان تحریروں کو پڑھتے رہے، ایک صاحب نے، جو شاید مدراس سے محض سیر و تفریح کے لیے آئے تھے، اپنا اور شہر کا نام لکھ کر تاریخ ڈال دی تھی اور پاس ہی ذرا اونچائی پر لکھا تھا، ’’خوی کو کر بلند اتنا۔۔۔‘‘


’’ان صاحب کا شاید یہ مطلب ہے کہ خودی کو کم سےکم اتنا بلند تو کریں جتنی بلندی پر یہ شعر لکھا ہے۔‘‘ اجمل نے کہا اور رخشندہ مسکرائے بغیرہ نہ رہ سکی۔


یہ دونوں جس جگہ کھڑے تھے اس کے سامنے ہی ایک طرف لکھا تھا، ’’میں اس سال بی۔ اے۔ کرکے کوئی چھوٹ موٹی نوکری کرلوں گا اور اس کو اپنے گھر لے آؤں گا۔‘‘ اس تحریر کے نیچے نہ کوئی نام تھا نہ پتہ۔ ہاں تاریخ بتاتی تھی کہ یہ بات چار پانچ سال ادھر کی ضرور تھی۔ خواہش کے اظہار کا یہ انداز رخشندہ کو بڑا بھایا اور اس نے اجمل کو متوجہ کرتے ہوئے کہا، ’’جانے یہ صاحب اپنی منظور نظر کو حاصل کرنے کے بعد یہاں آئےبھی یا نہیں۔‘‘


اجمل نے ایک بار پھر سامنے والے جملہ پر نظر ڈالی اور کہا، ’’Matter of Fact قسم کےآدمی معلوم ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں تو شادی کے بعد انہیں یہاں آنے کا خیال بھی نہ آیا ہوگا۔‘‘


’’ہونہہ، تم تو بس۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی، پھر بولی، ’’ہوسکتاہے اسے کسی اور شہر میں نوکری ملی ہو اور پھر یہاں آنے کا موقع ہی نہ ملا ہو۔‘‘


’’ممکن ہے‘‘ اجمل نے ہاں میں ہاں ملائی، ’’بہرحال میری چھٹی حس تو یہ کہتی ہے کہ حضرت اس وقت اپنے دوسرے بچے کو کھلارہے ہوں گے۔‘‘


رخشندہ شرما کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔


اس محراب کے ایک کونے میں رخشندہ نےاجمل کے نام کا ’’الف‘‘ اور اجمل نے رخشندہ کے نام کا ’’ر‘‘ لکھ دیا اور پھر اس کے نیچے تاریخ ڈال دی۔ دونوں خاموشی سے کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، پھر اجمل نے رخشندہ کا ہاتھ تھام لیا۔


’’کیوں کبھی یہاں آنا ہوگا تو اس جگہ ضرور آؤ گی نا؟‘‘


’’کیا آپ نہیں آئیں گے۔‘‘


’’میرے ساتھ آؤگی نا؟‘‘


رخشندہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی خاموشی میں انکار نہ تھا اور شاید وہ جواب بھی دے دیتی، لیکن اسی لمحے دونوں کو احساس ہوا کہ ایک اجنبی ان کے پاس کھڑا ہوا ہے۔


کھلتاہوا گندمی رنگ، لمبا چھریرا بدن، شیو بڑھا ہوا، خاکی قمیص اور پتلون اور پیر میں پرانی چپلیں۔ ان دونوں نے اس کا یہ حلیہ پہلی ہی نظر میں دیکھا۔ دونوں نے استعجاب اور کیا قدر ناپسندیدگی سے اس کی طرف دوسری بار دیکھا۔ اس بار انہیں اس کے کپڑوں، قدوقامت اور چہرے مہرے کے علاوہ ایک کرب اور بے چینی بھی نظر آئی۔ لیکن شاید دونوں کا شعوری ردعمل الگ الگ تھا۔ اجمل کو اس موقع پر اس کامخل ہونا کھلا تو رخشندہ کو اس کے میلے کپڑے اور ہونق سی صورت اور اس نے آہستہ سے اجمل سے کہا،


’’ماڈرن مجنوں نظر آتے ہیں، اپنی محبوبہ کا رونا رونے آئے ہوں گے۔‘‘


نو وارد پہلے تو ان دونوں کو خاموشی سے دیکھتا رہا، پھر مڑکر ایک محراب کے پاس کھڑے ہوکر دیوار کی کوئی تحریر پڑھنے لگا۔ چند منٹ تک تو اجمل اسے دیکھتا رہا، پھر دونوں ذرا فاصلے پر ایک دوسری محراب کے نیچے کھڑے ہوکر گومتی کی طرف دیکھنے لگے۔ ان دونوں نے نووارد کو اس طرف جاتے دیکھ کر جہاں تھوڑی دیر قبل وہ کھڑے ہوئے تھے، دوسری طرف رخ کرلیا اور کچھ اس طرح باتیں کرنے لگے جیسے انہیں کسی تیسرے شخص کی موجودگی کا علم ہی نہ ہو۔ پھر اپنی باتوں میں یہ دونوں ایسے بھولے کہ انہیں خیال بھی نہ آیا کہ وہ شخص وہاں کب تک کھڑا رہا اور کب واپس چلا گیا۔


’’تو زندگی کے سفر میں تم میرا ساتھ دوگی نا؟‘‘ اجمل نے رخشندہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا۔


’’اجمل!‘‘ رخشندہ اس سےکچھ زیادہ نہ کہہ سکی۔


’’کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ ہماری راہ میں دیوار نہ بن سکے گی؟‘‘


’’نہیں اجمل۔‘‘


اسی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے پکڑے دونوں مڑے اور آہستہ آہستہ قدم بڑھانے گلے۔ دونوں اس محراب کے قریب تک گئے جہاں تھوڑی دیر قبل انہوں نے اپنے نام کے پہلے حرف لکھے تھے۔ وہ اجنبی اسی جگہ آکر کھڑا ہوا تھا۔ اجمل نے دیکھا کہ ان کے نام کےپہلے حروف کے پاس ہی ایک نئی تحریر ابھی ابھی ابھری ہے۔ پینسل سے لکھی ہوئی یہ عبارت آس پاس کی تحریروں سے بالکل الگ معلوم ہوتی تھی۔


’’دیکھیں تو یہ حضرت کیا لکھ گئے ہیں؟‘‘ اجمل نے ذرا آگے جھکتے ہوئے کہا۔


رخشندہ بھی اجمل کے ساتھ یہ نئی تحریر دیکھنے لگی۔ پرانی عبارت کی جگہ پر لکھا تھا، ’’تم آخر کب تک اپنے وعدہ پر قائم رہتیں۔ میں پچھلے چار برسوں میں سو روپے کی نوکری تلاش نہ کرسکا کہ تمہیں اپنا لیتا۔ میری دلی مبارک باد قبول کرو، خدا کرے تم خوش و خرم رہو!‘‘


دونوں نے خاموشی سے ایک بار پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔ دونوں کو خوب اچھی طرح یاد تھا کہ اپنے نام کے پہلے حروف کھودتے وقت انہوں نے آرزوؤں اور تمناؤں کی ایک کہانی دیکھی تھی، اب وہ کہانی غائب تھی۔ دونوں نے غیر ارادی طور پر ایک دوسرے کے ہاتھ چھوڑ دیے اور خاموشی سے نیچے والے زینے کی طرف بڑھنے لگے۔