کیا نیٹو کی نئی منصوبہ بندیاں روس اور چین کے خلاف کارگر ثابت ہوں گی؟
امریکی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین اکثر و بیشتر امریکہ کے بارے میں ایک بات کیا کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ امریکہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اپنی عوام اور حلیوفوں کو متحد رکھنے کے لیے ایک سٹریٹجی یا حکمت عملی استعمال کیا کرتا ہے،وہ ہے مشترکہ دشمن سے مقابلے کی سٹریٹجی۔ یعنی امریکہ ایک دشمن تراشتا ہے اور عوام سمیت حلیفوں کو بتاتا ہے کہ فلاں ہمارا دشمن ہے، جس سے ہمیں خطرہ ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ متحد ہو کر کرنا ہے اور اپنی تمام تر توانائیاں اسی کے لیے خرچ کرنا ہیں۔ یوں حلیفوں کا دھیان اور توانائیاں دشمن کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں اور امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس طرح کرنے سے حلیفوں اور عوام کے اختلافات اور شکایات دب جاتی ہیں اور ان کا دھیان مبینہ دشمن کی طرف بٹ جاتا ہے۔
1949 میں جب امریکہ نے دیگر یورپی اتحادیوں سے مل کر نیٹو کو تشکیل دیا تھا تو بھی یہی تکنیک اپنائی تھی۔ اس وقت مشترکہ دشمن تھا سوویت یونین۔ 1991 میں جب سوویت یونین کا دیہانت ہو گیا تو امریکہ نے نیا دشمن گھڑ لیا۔ جسے اس نے اسلامک انتہا پسندی اور دہشت گردی قرار دیا۔ پھر آئندہ تین دہائیوں میں جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق سے نکلنے کے بعد اس منتر میں اتنی جان نہ رہی تھی کہ اتحادیوں کے اختلافات اور شکایات دبا کر بالادستی قائم رکھی جا سکتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نیٹو میں ایسے اختلافات زور پکڑ گئے تھے کہ فرانس کے صدر نے اسے مردہ ذہن قرار دے دیا تھا۔ بہت سے لوگ نیٹو کو قائم رکھنے اور اس پر پیسے خرچنے کی سوچ پر سوالات اٹھانے لگے تھے۔
لیکن اب حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا ہے۔یوکرائن پر روسی حملے نے امریکہ کو نیا موقع دیا ہے کہ وہ پرانے مشترکہ دشمن کو ایک بار پھر تراشے اور اپنے حلیفوں کو اس سے مقابلہ کرنے کے لیے متحد کر لے۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا ہے۔
اٹھائیس سے تیس جون کو اسپین کے دارالحکومت میڈرڈمیں نیٹو کے اراکین کا اجلاس ہوا۔ خاصے عرصے بعد اراکین کسی حد تک اپنی اپنی شکایات بالائےطاق رکھتے ہوئے متحد نظر آئے۔ کیونکہ انہیں مشترکہ دشمن مل چکا ہے جس کے خلاف انہیں تیاری کرنا ہے۔ اجلاس میں نیٹو کی آئندہ کی سٹریٹجیز میں تبدیلیاں کرتے ہوئے نیو سٹیریٹجک کونسیپٹ یا نیا تزویراتی تصور نامی دستاویز جاری کی گئی۔ طے پایا کہ اب سے نیٹو کا سب سے بڑا دشمن روس ہے جس کے خلاف انہیں مشرقی یورپ میں اپنی افواج کی تعداد بڑھانا ہے۔ برق رفتار فورس کی تعداد کو چالیس ہزار سے بڑھا کر تین لاکھ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ فیصلہ ہو گیا کہ نیٹو کے اتحاد کو بڑھاتے ہوئے فن لینڈ اور سویڈن کو اتحاد میں شامل کر لیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ترکیہ ، سویڈن اور فن لینڈ کے مابین پچھلے منگل کو ہونے والے معاہدے کے بعد ہوا ہے۔ معاہدے میں فن لینڈ اور سویڈن سے پی کے کے ،کے اراکین کی حمایت سے باز رہنے کی یقین دہانی لی گئی ہے۔ جس کے بعد ترکیہ نے ان کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت چھوڑ دی ہے۔
علاوہ ازیں اجلاس میں بڑھتے ہوئے چین کے اثر رسوخ پر بھی بحث ہوئی ہے۔ اس کے لیے پہلی بار نیٹو کے اجلاس میں مشرق بعید میں موجود امریکی حلیف جاپان،ساؤتھ کوریا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے بھی شرکت کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے نیٹو اپنے بازو مشررقی یورپ کے ساتھ ساتھ مشرق بعید میں بھی پھیلا رہا ہے۔