نقاب پوش
اے میرے بد نصیب باپ
چیخ چیخ کر رونا
کچھ بھی ثابت نہیں کرتا
وقت
کچھ بھی نہیں ہے
اور حیرت زدہ دروازے
یہ تو روز کا معاملہ ہے
انجن کے کوئلے کی طرح
جل نہ اٹھنا
ورنہ
راکھ کی طرح انڈیل دئے جاؤ گے
اے میرے بد نصیب باپ
زندگی کی چھوٹی بندرگاہوں پر
بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے
کچھ عجیب نہیں کہ تم
ہمیشہ ساحل پر کھڑے رہے
یہ تمہارا اپنا مسئلہ تھا
کہ تم نے
موجوں کو واپس لوٹنے کے لئے چھوڑ دیا
تم ان پر سوار نہ ہو سکے
اور جہاز اپنے بادبان لہراتے ہوئے
گزرتے گئے
اور ہم
جو تا عمر ایک ہی طرح کی زندگی جینے پر مجبور تھے
اپنی اپنی جگہ خود فراموشی کی داستان لکھتے رہے
انتظار کرتے رہے ایک نئے دن کا
ایک نئی موج کا
ایک نئے بادبان کے پھول اٹھنے کا
ہم نے وقت کو اپنا جواز بنایا
ابلتے دریا
آتش خور پیڑ
ایک بے انتہا زمین
ایک بے برگ آسمان
اے میرے بد نصیب باپ
میرا مالک غلامی کے لئے نہیں بنا
مگر تم جو ہم لوگوں سے بالکل الگ تھے
تم تا عمر نقاب پوش رہے
جب کہ ہم
اپنی تمام کوششوں کے باوجود
اپنے چہروں تک پہنچ نہ پائے