لیمپ جلانے والے

(تم سفر کے بارے میں سوچ کیسے سکتے ہو؟ ایک نئی دنیا کے لیے خود کو تیار کرلو۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ ابھی امکانات نے اپنے تمام دروازے کھولے ہی کہاں ہیں۔ لیمپ پوسٹ)


گلی سے نکلتے ہی نکڑ پر ایک آ ہنی لیمپ پوسٹ واقع ہے جس پر پرانے وقتوں میں کبھی کیروسین تیل کا لیمپ جلا کرتا ہوگا۔ اب وہ لیمپ اپنے پنجرے اور شیشوں سمیت غائب ہوچکا ہے۔ اب کھمبے پر صرف ایک بریکٹ بچی ہے جس پر کبوتر یا کوے بیٹھے پہرہ دیا کرتے ہیں۔


ایک دن اس کا ایک اور مصرف بھی نکل آتا ہے جب ایک بھکاری اس بریکٹ سے لٹک کر خودکشی کرلیتا ہے۔ لیکن اس واقعے کو ایک دہائی گزر چکی ہے۔ میں پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ بوڑھا ہوگیا ہوں۔ اپنے پنشن یافتہ ہونے تک میں نے اس لیمپ پوسٹ کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تھا جو دور سے ایک ٹوٹی ہوئی صلیب کی مانند دکھائی دیتا ہے اور رات کے دھندلکے میں ایک لمبے لاغر انسان میں بدل جاتا ہے جس کا صرف ایک ہاتھ ہو۔


’’تم مجھے نظر انداز نہیں کرسکتے‘‘، ایک دن لیمپ پوسٹ نے جھک کر میرے داہنے کان میں کہا کیونکہ اب میں اسی کان سے کچھ سن پاتا ہوں۔ میں نے مضطرب ہو کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ کہیں کسی نے دیکھ لیا تو؟ جانے وہ میرے بارے میں کیا رائے قائم کر بیٹھے۔


’’اورتم اتنے حیران کیوں ہو؟‘‘


’’تم ایسا کیسے کرسکتے ہو؟‘‘ میں نے دھیمی آواز میں کہا۔ ’’تم کوئی زندہ چیز نہیں ہو۔ تم اس طرح جھک نہیں سکتے، نہ بات کرسکتے ہو۔ یہ تو ایک بالکل ہی غیرحقیقی بات ہے۔‘‘


’’میں جھک تو گیا ہوں‘‘، کھمبے نے کہا۔


مگر وہ تن کر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ چینی دندان ساز شانگ فو اپنے رکشا میں واپس لوٹتا نظر آتا ہے۔ یہ شانگ فو ہے جس نے میرے تمام غیرضروری دانت نکالے ہیں اور تمام غیرضروری دانت لگائے بھی ہیں جن کے پیچھے میرا کافی وقت صرف ہوتا ہے اور جنھوں نے، ایک طرح سے دیکھا جائے تو، نفسیاتی طور پر مجھے شانگ فو کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جوڑ دیا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں وہ واحد دندان ساز ہے۔ شاید مجھے کسی بی ڈی ایس سے رجوع کرنا چاہیے۔ اب اس طرح کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر آنے لگے ہیں، اگرچہ چینی دندان ساز وں کی ساکھ ابھی کم نہیں ہوئی ہے۔ شانگ فو نشے میں ہے۔ وہ مجھے پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کے بڑے سے گھر کا لکڑی کا سرخ پھاٹک کھلتا ہے اور وہ رکشا کے ساتھ اندر چلا جاتا ہے۔ اب یہ رکشا کل صبح ہی نکلنے والا ہے۔


’’شانگ فو بے اولاد ہے‘‘، کھمبے نے مجھ سے سرگوشی کی ہے، ’’اور اس کی بیوی اس سے عمر میں دس سال بڑی ہے۔‘‘


’’مجھے افسوس ہے۔ مگر مجھے اس سے کیا؟‘‘


’’وہ شہر کا واحد چینی باشندہ ہے۔ تمھیں اس کی حفاظت کرنی چاہیے، تم یہ کیوں نہیں سوچتے؟‘‘


’’ارے ہاں، بالکل تمھاری طرح وہ بھی اپنا ایک اینٹیک ویلیو (antique value) رکھتا ہے۔‘‘ میں ہنستا ہوں۔ ’’مجھے تمھاری ہمدردی سمجھ میں آتی ہے۔‘‘


اور اس سے پہلے کہ کھمبا کوئی جواب دے، میں اپنے گھر کی طرف چل دیتا ہوں۔ گھر کے دروازے پر میں پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ کھمبا سنسان سڑک پر اْداس کھڑا ہے اور شانگ فو کی کوٹھی میں اوپر کا ایک کمرہ روشن ہوگیا ہے۔


دن کے وقت یہ کھمبا کس قدر بدنما اور غیرضروری دکھائی دیتا ہے۔ پان کھانے والے اس پر انگلیوں کا چونا صاف کرتے ہیں اور جنسی امراض کے ماہر اس پر اپنے اشتہار چپکاتے ہیں، جبکہ سڑک پار شانگ فو کی کوٹھی اس کھمبے کی طرح قدیم ہوتے ہوے بھی اس پر رنگ و روغن جاری ہے۔ حال ہی میں اس کی دوسری منزل پر واقع کھپریل کے ایک چھپر کے اوپر ایک مرغِ بادنما نصب کیا گیا ہے جسے شانگ فو کے رشتے داروں نے منچوریا سے بھیجا ہے، جہاں وہ سویا بین کی کاشت کرتے ہیں۔


’’میں نے ایک پورا دور دیکھا ہے۔ میں نے انگریزی دور حکومت میں ہندوستانی فوج کو مارچ کرتے ہوے برما کے محاذ کی طرف جاتے ہوے دیکھا ہے‘‘، کھمبا مجھے بتا رہا ہے۔ ’’اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب عادی مجرم اور پاگل لوہے کے کڑے پہنا کر سڑک پر چھوڑ دیے جاتے تھے۔‘‘


’’مجھے ان باتوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟‘‘ میں کہتا ہوں۔ ’’تم وہی باتیں کہہ رہے ہو جو سب جانتے ہیں۔‘‘


’’میں نے بنگال کے دونوں قحط دیکھے ہیں۔‘‘


’’آہ!‘‘ میں مایوسی سے سرہلاتاہوں۔ ’’تم سے بات کرنا بے کار ہے۔‘‘


کھمبا چپ ہوجاتا ہے۔ ایک چیل آکر اس کی بریکٹ پر بیٹھ گئی ہے۔ بریکٹ کمزور ہے۔ وہ بہت مشکل سے پرندے کا بوجھ سنبھال پارہی ہے۔ پرندے کو آرام نہیں ملتا۔ وہ اڑ کر شانگ فو کی کوٹھی کے مرغِ بادنما کی طرف چلا جاتا ہے جو واپس لوٹتے ہوے مون سون کے سبب گھڑی کے رخ پر چکر لگارہا ہے۔


’’یہ شانگ فو، یہ میرے سامنے پیدا ہوا‘‘، آخر کار کھمبا کہہ اٹھتا ہے۔


’’یہ ہوئی نا کوئی بات!‘‘ میں سر تا پا توجہ بن جاتا ہوں۔


’’اس کا باپ بلا کا افیمچی تھا‘‘، کھمبا کہتا رہا۔ ’’وہ شنگھائی سے زبردستی پانی کے جہاز پر مزدور بنا کر لایا گیا تھا۔ مگر خضر پور کی بندرگاہ میں وہ اس چینی جہاز سے بھاگ نکلا۔ اس کے بڑے سے چہرے پر ایک اکلوتا تِل تھا جس سے دو لانبے بال نکلے ہوے تھے اور اس کی آنکھیں تھیں ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے اس کی آنکھیں ایسی تھیں کہ نظر نہیں آتی تھیں۔ مگر سب کو پتا تھا اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان کام نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی چٹائی پر لیتا رہتا اور پائپ سے افیم کے کش لگایا کرتا۔‘‘


کھمبا پھر دو دن تک خاموش رہتا ہے اور مجھے شک ہونے لگتا ہے۔۔۔ کیا یہ میرا واہمہ تھا؟ کیا واقعی میں بوڑھا ہورہا ہوں؟


’’شاید تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو‘‘، تیسرے دن میں اسے اکساتا ہوں۔ مگر کھمبا خاموش رہتا ہے۔


’’ایسا نہیں ہے کہ میں تمھاری باتوں میں یقین نہیں کرتا‘‘، میں کہتا ہوں، ’’مگر تم سمجھ سکتے ہو، میں آج کا انسان تو ہوں نہیں۔ میں نے بھی اس ملک کو تقسیم ہوتے دیکھا ہے، میں نے بھی اس کی سڑکوں پر نفرت پھیلانے والوں کی تعداد کو بڑھتے دیکھا ہے، بلکہ ان میں سے کچھ تو اب ہمارے ملک کے نمائندے بن کر دوسرے ملکوں میں بھی جانے لگے ہیں۔ میں بھی دیکھ سکتا ہوں کہ کس طرح دن بہ دن لوگ نقل وحمل میں استعمال ہونے والے جانوروں کی طرح جینے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘


’’اور تم اس ملک کے قوانین نافذ کرنے والوں کے بارے میں بات نہیں کروگے‘‘، یکایک کھمبا کہہ اٹھتا ہے، ’’جو اپنے شہریوں کی مقعد تک کو کھنگال لینا چاہتا ہے؟‘‘


’’میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں، میں خود ایک سرکاری دفتر میں اپنی زندگی گزار آیا ہوں‘‘، میں شرمندگی سے کہتا ہوں۔ ’’لوگوں کے ساتھ سدومت کرنے کے عمل میں میں بھی برابر کا شریک رہا ہوں۔ اور اب میری حیثیت ایک ناسزایافتہ مجرم سے بھی بدتر ہے۔ میرے ضمیر پر ایک بڑا بوجھ ہے۔‘‘


’’آہ! اورمیں تمھیں ایک اچھا انسان سمجھ رہا تھا۔‘‘


میں کھمبے کو اپنے بارے میں اور بھی بہت کچھ بتانا چاہتا تھا۔ مگر مجھے معلوم ہے میری زندگی میں ایسا کوئی نادر واقعہ کبھی پیش نہیں آیا جو کسی کے لیے دلچسپی کا حامل ہو۔


میں اس شہر میں پیدا ہوا، بڑا ہوا، نوکری کی، بچے پیدا کیے اور اب پنشن یافتہ ہوں۔ میرے بہی خواہوں اور میری بدگوئی کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جوایک لمبی زندگی کا لازمی نتیجہ ہے۔ ان سے مجھے بچنا بھی پڑتا ہے اور گاہے بہ گاہے مجھے ان کی ضرورت بھی پڑتی رہتی ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر کھڑے ہو کر آپ دیکھتے ہیں آپ کے ساتھ نیا کچھ بھی نہیں ہوتا، سارے رشتے ناتے، واقعات وحادثات خود کو دہراتے رہتے ہیں۔ حافظے کا دیو آپ کو اپنے چنگل میں لیے اڑتارہتا ہے۔


میرے گھر والوں کا خیال ہے میری ذ ہنی حالت ٹھیک نہیں۔ میں بلاو جہ بیمار پڑتا ہوں اور بلاوجہ ٹھیک ہوجاتا ہوں۔ میں ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوچکا ہوں اور اب میرے اور بچوں کے درمیان ایک نسل کا فاصلہ ہوچکا ہے۔ میں انھیں افق پر غائب ہوتے دیکھتا رہتا ہوں، بلکہ ان میں سے بہت سارے تو سمندر پار جاچکے ہیں۔ سماج میں رہ کر مجھ سے جن باتوں کی توقع کی جاتی ہے، میں ان میں پورا نہیں اترتا اور مجھے خود اس پر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنی زندگی سماج کے مروجہ اصولوں کو دھیان میں رکھ کر گزاری ہے۔ میں اپنے کمرے میں، اپنے بستر پر کھڑکی کے رخ لیٹا آسمان کی طرف تاکتا رہتا ہوں جس میں شانگ فو کا مرغِ باد نما اپنا چکر لگاتا رہتا ہے۔ میری کتابوں کی الماری کے شیشے دھندلے پڑ چکے ہیں، اس پر لگے ہوے قفل پر زنگ چڑھ چکا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بہتیری کتابوں کو میں نے چھوا تک نہیں ہے، جبکہ ایک وقت تھا میں ان کی تلاش میں ٹرین اور بسوں میں میلوں کی مسافت طے کیا کرتا تھا۔ ہر سال نہ جانے کون میری مغربی دیوار پر ایک کیلنڈرٹانگ جاتا ہے، اس بات سے لاپرواکہ مجھے اب اس کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ کیلنڈر ہوا کی زد میں آکر دیوار کے پلستر
پر ایک نیم بیضوی لکیر کھینچ ڈالتا ہے اور دن بہ دن اسے کسی زخم کی طرح گہرا کرتا جاتا ہے۔ کبھی کبھار میں چونک کر اپنے بستر پر اٹھ بیٹھتا ہوں۔ کون ہوں میں؟ اس سیارے پر میرا کام کیا ہے؟ جانے کتنا وقت لگ جاتا ہے تب جاکر میں اس قابل ہوپاتا ہوں کہ زمان و مکاں کے نظام میں خود کو دریافت کرسکوں۔ اس بار سردی زور کی آئی ہے۔ میں ایک لمبی بیماری کا شکار ہوجاتا ہوں۔ موسم سرما عمر دراز لوگوں کے لیے دوسری دنیا کی طرف کوچ کرنے کا موسم ہوتا ہے۔ کیا میں اس سفر کے لیے تیار ہوں؟ میرے جسم کی ہڈیاں سوکھ چکی ہیں۔ مجھے ٹھنڈ کے خلاف بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اکثر میرے نہ چاہنے پر بھی میری کھڑکی میں کہرا بھرجاتا ہے۔ میرے گھر والے مجھ سے پریشان ہیں۔ میں انھیں اپنی کھڑکی بند کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کبھی جب مرغِ بادنما کہرے میں تحلیل ہو کر نظر سے غائب ہوجاتا ہے تو مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ میں اپنی عینک ڈھونڈ کر اس کے اندر سے آسمان کا جائزہ لیتا ہوں۔ وہ مجھے کہیں گردش کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ پھر نظر آنے لگتا ہے۔ وہ بہت دھیمی رفتار سے چکر لگا رہا ہے، شاید گھڑی کے رخ پر۔۔۔ نہیں، شاید گھڑی کے مخالف۔ ہاں وہ گھڑی کے مخالف چکر لگا رہا ہے۔ پھر وہ غائب
ہوجاتا ہے۔ مگر اب مجھے اطمینان ہے۔ میں بستر پر لیٹ کر چین کی سانس لیتا ہوں۔ لحاف اور کمبل اپنی رطوبت بھری ناک تک کھینچ کر مسکراتا ہوں۔ اگر اس جاڑے سے گزر پایا تو شاید دوبارہ شانگ فو کے کلینک جاؤں۔ میرے کچھ اور دانت ہل رہے ہیں۔ شاید اس بار شانگ فو میرے دانتوں کے ساتھ کوئی چمتکار کرسکے۔ دنیا کتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ سائنس الہ دین کے جن کی طرح انسان کو اپنی ہتھیلی پر لیے اڑرہی ہے، اس کی ہر خواہش پوری کرتی جارہی ہے۔ اگلے سو سال کے اندر ہمارے لیے کرنے کو کچھ بھی نہ رہ جائے گا۔ ہماری حیثیت ایک تماش بین سے زیادہ کی نہ ہوگی۔


سردی میں کمی آگئی ہے۔ دوسرے تمام عمر دراز لوگوں کی طرح میری بھی طبیعت سدھرنے لگی ہے۔ ایک عرصے کے بعد میں گہری نیند سویا ہوں اور اب رات ہوچکی ہے۔ رات صاف ہے، کہیں پر کہرے کا نام و نشان نہیں۔ کھڑکی سے آسمان دکھائی دے رہا ہے جس میں تارے روشن ہیں۔ میرے لیے گرم سوپ لایا جاتا ہے۔ میں پیٹ بھر کر پیتا ہوں۔ پھر سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید یہ آدھی رات کا وقت ہے جب میں اپنے بستر سے اتر کر دوچار قدم چلتا ہوں۔ اس سے زیادہ تازہ دم میں نے زندگی میں کبھی خود کو نہ محسوس کیا ہوگا۔ میں کمبل کو اپنے جسم کے گرد اچھی طرح لپیٹ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولتا ہوں۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ اپنے کمپیوٹر پر کچھ پرنٹ کررہا ہے۔ وہ کبھی شاعر بننا چاہتا تھا۔ وہ شاعر اس کے اندر جانے کہاں گم ہوگیا۔ کچے آنگن سے گزر کر میں صدردروازہ کھولتا ہوں اور اب میں باہر فٹ پاتھ پر کھڑا ہوں۔ سڑک پر شانگ فوکا گھر تاریک پڑا ہے۔ چاند کرہٗ ارض کے دوسرے نصف پر چمک رہا ہوگا جسے دھوپ میں لوگ دیکھ نہ پا رہے ہوں گے۔ اس پوری سڑک پر صرف میرے کمرے کی کھڑکی سے روشنی کا ایک مثلث فٹ پاتھ سے گزر کر سڑک پر گررہا ہے۔ میری کھڑکی کے نیچے ایک متروک سنگ میل ہے جس پر بچے دن کے وقت کرکٹ کھیلتے ہیں اور رات کے وقت میں بیٹھتاہوں۔ میں اس پر بیٹھ کر (میں اپنے کولھوں میں اس کی ٹھنڈک محسوس کرتا ہوں) سامنے کھڑے لیمپ پوسٹ کی طرف تاکتا ہوں۔ اس کا ہیولا مجھے دکھائی دیتا ہے۔ میں سڑک پار شانگ فو کی بالائی منزل کے چھپر کو تاکتا ہوں۔ مرغ بادنما گھر کے خاکے سے ہم آہنگ ہوگیا ہے۔ اگر تارے کچھ اور روشن ہوتے!


ہوابند ہے۔ سڑک کی دونوں جانب دور تک ایک بھی انسانی سایہ نہیں۔ کل ملا کر یہ میری زندگی کی ایک اچھی رات ہے۔ اور جب میں یہ سوچ رہا ہوں، مجھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ دو آدمی اپنے کندھوں پر ایک سیڑھی سنبھالے ہوے ایک اْجالیے اور کنستر کے ساتھ میرے سامنے سے گزرتے ہیں۔ دونوں اپنے اْجالیے کی روشنی میں مسکرا کر میری طرف تاکتے ہیں اور کھمبے سے سیڑھی ٹکا کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔


’’لیمپ جلانے والے۔۔۔‘‘ میں حیرانی سے سوچتا ہوں مگر سنگ میل پر بیٹھا رہتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں، پہلا آدمی سیڑھی پر چڑھ کر بریکٹ تک پہنچ گیا ہے، دوسرا اسے کنستر تھما رہا ہے۔۔۔ اور تب، میرے خدا! میں اپنی جگہ اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ پہلی بار میں دیکھتا ہوں کہ لیمپ پوسٹ کی بریکٹ سے ایک لیمپ لٹک رہا ہے جس کے اندر وہ پیرافین انڈیل رہا ہے۔ وہ اپنے ساتھی کو پیرافین کا کنستر واپس دے کر اْجالیہ لے لیتا ہے اور تب وہ واقعہ ہوتا ہے جو اس کہانی کا اہم موڑ ہے۔ لیمپ اپنے رنگین شیشوں کے اندر جل اٹھتا ہے۔ سیڑھی ہٹالی جاتی ہے اور وہ دونوں سیڑھی کندھوں سے لٹکائے واپس لوٹتے ہیں۔ وہ میری طرف دیکھ کر دوبارہ مسکراتے ہیں اور سڑک پر چلتے ہوے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں۔


ایک پل کے لیے میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں؟ مگر میرے یقین نہ کرنے پر بھی لیمپ پوسٹ کی روشنی سڑک پر پھیل رہی ہے اور آس پاس کی دیواروں پر جاٹکی ہے۔ میں لیمپ پوسٹ کے پاس جاتا ہوں۔


کیا واقعی! میں ششدر سا لیمپ پوسٹ کو جلتے دیکھتا رہتا ہوں۔ اس میں سفید، ہرے اورنیلے رنگ کے شیشے لگے ہیں۔ اندر فلیتہ خاصی لمبی لودے رہا ہے جس نے اپنے دندانے دار بیرم کے سبب ماہیِ دم کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ لیمپ فلزکاری ایک نادرنمونہ ہے جس کے بالائی سرے کی مجوّف سطح کو انگلستانی تاج کی شکل دے دی گئی ہے۔


’’ہاں!‘‘ لیمپ پوسٹ کی سرگوشی سنائی دیتی ہے۔ ’’یہ میری زندگی کی ایک اچھی رات ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب کچھ صحیح سمت کی طرف لوٹ رہا ہے۔‘‘


’’مجھے سوچنے دو‘‘، میں کہتا ہوں۔ میں مڑ کر دیکھتا ہوں۔ مجھے سڑک کی دونوں جانب دور تک قدیم دور کے یہ دورویہ لیمپ روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اسی درمیان آسمان پر کچھ نئے تارے بھی بڑی تعداد میں آگئے ہیں جن کی روشنی میں شانگ فو کا مرغ بادنما نظر آنے لگا ہے۔ مجھے اپنی رگوں میں گرم خون دوڑتا سنائی دیتا ہے۔ ’’کیایہ ممکن ہے؟‘‘


’’بالکل!‘‘ لیمپ پوسٹ وثوق کے ساتھ کہتا ہے۔ ’’اچھے دنوں کی شروعات کبھی بھی ہوسکتی ہے۔ دیکھوہم دونوں ایک دوسرے کو کتنا صحیح سمجھ پارہے ہیں۔‘‘


’’وہ تو ہے۔‘‘ میں کھمبے پر اپنے دونوں ہاتھ ٹکا کر اوپرتاکتا ہوں جہاں لیمپ اپنے شیشوں کے اندر جل رہا ہے اور اس کے پس منظر میں تارے محدب آسمان پر اپنے جاوداں سفر پر رواں ہیں۔ ’’اور میں سمجھ رہا تھا یہ میری زندگی کی آخری سردی ہے۔ واقعی یہ ایک نئی شروعات ہے۔ ابھی سفرکا موسم نہیں آیا۔‘‘


’’تم سفر کے بارے میں سوچ کیسے سکتے ہو؟‘‘ لیمپ پوسٹ کی آواز میں ہمدردی ہے۔ ’’ایک نئی دنیا کے لیے خود کو تیار کرلو۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ ابھی امکانات نے اپنے تمام دروازے کھولے ہی کہاں ہیں۔‘‘


’’شکریہ!‘‘ میں مسکراتا ہوں اور لیمپ کی قدیم روشنی میں سڑک پر چلنے لگتا ہوں۔ میں اس روشنی کے حلقے کے آخری سرے سے لوٹ آتا ہوں، اسے آنکھوں میں بھر کر کھڑا رہتا ہوں۔ آنکھیں کھول کر مسکراتا ہوں۔


’’واقعی امکانات نے اپنے کچھ دروازے کھولے تو ہیں۔‘‘


رات کا باقی حصہ میں سنگ میل پر بیٹھ کر گزار دیتا ہوں۔ میری آنکھیں لیمپ پوسٹ کے رنگین شیشوں سے ہٹتی ہی نہیں۔۔۔ یہاں تک کہ کسی قریبی مسجد سے فجر کی اذان سنائی دیتی ہے۔ میں اپنے کمرے میں لوٹتا ہوں اور بڑی گہری نیند سوجاتا ہوں۔ دن کا بڑا حصہ بیت چکاہے جب میں نے آنکھیں کھولی ہیں۔ سورج آسمان پر نہیں ہے۔ میں کھڑکی کے باہر تاکتا ہوں۔ کہرا سڑک پر اِدھر سے اْدھر پھیل رہا ہے۔ میری غشی ابھی دورنہیں ہوئی ہے۔ میر ادل تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ میں رات کے واقعے کو یاد کر کے مسکرانا چاہتا ہوں، لیکن مسکرا نہیں پاتا۔ میں اولین ضروریات سے فراغت پا کر باہر سڑک پر آتاہوں اور میری نظر لیمپ پوسٹ کی طرف اٹھ جاتی ہے جواب وہاں نہیں ہے۔ ا ب اس جگہ پر ایک اونچا بجلی کا کھمبا رسی کے سہارے کھڑا کیا جارہا ہے۔ میں گھبرا کر سڑک پر دور تک نظر دوڑاتا ہوں۔ کہیں میں نے غلط تو نہیں دیکھ لیا ہے؟ مگر سڑک پر تاحد نظر اسی طرح کے کھمبے کھڑے ہیں یا نصب کیے جارہے ہیں۔


’’یہ کیا کررہے ہوتم لوگ؟‘‘ میں ایک رسی کھینچنے والے سے پوچھتا ہوں۔ وہ ایک ان پڑھ مزدور ہے۔ وہ میری بات سمجھ نہیں پاتا۔


’’بس دو دن کی بات ہے جناب، پھر آپ لوگوں کو یہاں رات کی جگہ دن دکھائی دے گا‘‘، ایک خوش پوش اوورسیئرمداخلت کرتا ہے۔ اور تب مجھے پرانا لیمپ پوسٹ زمین پر پڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بریکٹ اس کے برابر رکھی ہوئی ہے۔


’’یہ کیا کیاتم نے؟‘‘ میں اس سفید پوش شخص سے کہتا ہوں جو کام کی نگرانی کررہا ہے۔ ’’یہ فیصلہ لینے والے تم لوگ ہوتے کون ہو؟ ہم سے ہماری راتوں کو چھیننے کا حق تمھیں کس نے دیا؟‘‘


وہ شخص کچھ نہ سمجھ کر سر ہلاتا ہے مگر احتراماً خاموش رہتا ہے۔ میں جھک کرگرے ہوے کھمبے پر اپنی ہمدردانگلیاں رکھتا ہوں۔


’’خداحافظ!‘‘ کھمبے نے مجھ سے سرگوشی کی ہے۔ ’’اپنے آنسوؤں پر قابو رکھو۔ یہ تو ایک دن ہونا ہی تھا۔‘‘


’’اسے نہ چھونا!‘‘ مجھے اوورسیئر کی تنبیہ سنائی دیتی ہے۔ ’’یہ سرکاری پراپرٹی ہے۔‘‘


’’خداحافظ!‘‘ میں کھمبے کو جواب دیتا ہوں اور مڑ کر اوورسیئر سے مخاطب ہوتا ہوں۔ ’’تم اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جاؤگے۔‘‘


وہ لوگ بجلی کے کھمبے کو گاڑ کر پرانا کھمبا ٹرک میں لاد کر چلے گئے ہیں۔ صرف ایک راج مستری مزدور کی مدد سے اس کی بنیاد کو سیمنٹ ریت اور کنکریٹ سے بھر رہا ہے۔ سورج نے بادل کے کناروں سے ایک پل کے لیے جھانکا ہے اور مجھے لیمپ پوسٹ کے سنگ میل پر بیٹھاپایا ہے۔ شانگ فو کا مرغ باد نما تیزی سے چکر لگا رہا ہے، جیسے اس پر دورہ پڑگیا ہو۔ دورویہ گھروں کے باورچی خانوں کا دھواں کہرے میں ملنے لگا ہے۔ اس سڑک پر شام کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ میری بائیں پسلیوں میں ایک ٹیس ابھرتی ہے۔ میں بڑی مشکل سے اپنے کمرے میں لوٹتا ہوں۔ دودن تک یہ درد مجھے بے چین رکھتا ہے۔ میں نے اس بارے میں کسی کو بتایا نہیں ہے۔ تیسری رات مجھے گہری نیند آجاتی ہے۔ جانے کیوں مجھے لگتا ہے میں اب اس نیند سے کبھی جاگ نہ پاؤں گا۔ میں خواب میں لیمپ پوسٹ کو دیکھتا ہوں جس سے ایک بھکاری لٹک رہا ہے۔ میں شانگ فو کے باپ کو بھی دیکھتا ہوں جو چٹائی پر لیٹا ہوا پائپ پی رہا ہے۔


’’یہ شب اپنے اپنے کرم کا پھل ہے‘‘، وہ کہتا ہے، اور میں دیکھتا ہوں وہ اپنی بغیر آنکھوں والی آنکھوں سے مجھے تاک رہا ہے۔


ایک ہفتے کے بعد میں سڑک پر آیا ہوں۔ سنگ میل اپنی جگہ پر نصب ہے۔ مرغِ باد نما سرخ آسمان کے نیچے دھیرے دھیرے چکر لگارہا ہے۔ نئے لیمپ پوسٹ کے نیچے بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ میں سنگ میل پر بیٹھا بیٹھا دن کو دم توڑتے دیکھ رہا ہوں۔ اندھیرا اچھا خاصا پھیل چکا ہے جب مجھ پریہ حقیقت کھلتی ہے کہ لڑکے کرکٹ کھیل کر جاچکے ہیں اور میں اکیلا سنگ میل پر بیٹھا ہوا ہوں۔ کوئی راہ گیر اندھیرے میں مجھ سے ٹکرا نہ جائے۔ شانگ فو کی کوٹھی کی بالائی منزل کی کھڑکیاں روشن ہوگئی ہیں۔ کہرا شہر کی کثافت کے ساتھ مل کر کچھ اور گہرا ہوگیا ہے۔ ابھی میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی ہے کہ لیمپ پوسٹ کی چوٹی پر ایک ہلکی، یرقان زدہ روشنی جاگ اٹھتی ہے۔ میں اٹھنے کا ارادہ ملتوی کردیتا ہوں۔ دھیرے دھیرے لیمپ کی روشنی میں شدت آجاتی ہے اور آخرکار یہ پوری آب و تاب کے ساتھ جل اٹھتا ہے۔ کہرے کے باوجود یہ لیمپ ہر شے کو اپنی حیرت انگیز روشنی کی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وہ کتنی بے باکی سے ہردیوارپر اپنی پیلی یرقان زدہ روشنی پھیلا رہا ہے، یہاں تک کہ شانگ فو کا مرغ بادنما بھی اس میں صاف نظر آرہا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں شہر کی کسی اجنبی سڑک پر چلا آیا ہوں۔ میں دھیرے د
ھیرے چلتے ہوے اس لیمپ پوسٹ کے نیچے چلا جاتا ہوں۔ یہ ایک بہت بڑا سوڈیم لیمپ ہے اور کم از کم پچیس فیٹ کی اونچائی پر ہونے کے باوجود اس کی پیلی روشنی اتنی تیز ہے کہ میں اپنے ہاتھ کی لکیروں کو بھی پڑھ سکتاہوں۔


’’ہیلولیمپ پوسٹ، کیسے ہو؟‘‘


میں کھمبے پر ہاتھ رکھ کر اس سے مخاطب ہوتا ہوں۔ لیمپ پوسٹ کسی دیو کی طرح کھڑا اپنے عفریتی لیمپ کی واحد آنکھ سے میری طرف سرد مہری سے تاک رہا ہے۔ اس کی روشنی زرد سیال کی طرح میری آنکھوں میں بھررہی ہے۔ وہ میری بات کا جواب نہیں دیتا۔ شاید اسے ایک بہت بڑے رقبے پر روشنی پھیلانی پڑتی ہے اور میرے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔


میں شکست خوردہ گھر کے اندر لوٹتا ہوں۔ سوڈیم ویپرلیمپ کی زردی مائل روشنی میرے کمرے میں بھر گئی ہے اور کمرہ اجنبی دکھائی پڑرہا ہے۔ میں کھڑکی کے پاس جاتا ہوں، ایک نظر نئے لیمپ پوسٹ پر ڈالتا ہوں، دوسری نظر مرغ بادنما کی طرف دوڑاتا ہوں جو اتنی دوری کے باوجود صاف گردش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ آہ! اب اس کا اسرار ختم ہوچکا ہے۔ میں کھڑکی کے دونوں کواڑ سختی سے بند کر کے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔


آنکھیں بند کر تے ہی مجھے پرانا لیمپ پوسٹ دکھائی دیتا ہے جس کے سامنے سے لیمپ جلانے والے سیڑھی اٹھائے ہوے گزررہے ہیں۔ میں بھکاری کو بھی دیکھتا ہوں جولیمپ پوسٹ سے لٹک رہا ہے اور جس کے دونوں ہاتھ ایڑیوں تک لانبے ہوگئے ہیں۔ اور پھر مجھے شانگ فو کا باپ دکھائی دیتا ہے جو ایک پتلی چٹائی پر لیٹا ہوا پنکھا جھل رہا ہے۔


’’یہ شب اپنے اپنے کرم کا پھل ہے‘‘، وہ افیم کی نلکی سے منھ ہٹا کر کہتا ہے۔