نفرتوں کی نئی دیوار اٹھاتے ہوئے لوگ

نفرتوں کی نئی دیوار اٹھاتے ہوئے لوگ
کیا عجب لوگ ہیں زندان بناتے ہوئے لوگ


تیرا ہر نقش مٹاتی ہوئی یادیں تیری
اور پھر مجھ کو تری یاد دلاتے ہوئے لوگ


کیا خبر کس کو ترے ہجر نے بخشی ہے نجات
جانے وہ کون تھے اشکوں میں نہاتے ہوئے لوگ


اب تو ہر گام پہ ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں
دیکھ کر مجھ کو ترا نام بلاتے ہوئے لوگ


دھوپ میں سایہ ملے بھی تو کہاں سے صادقؔ
جل گئے پھوس کے چھپر کو بناتے ہوئے لوگ