نبی مکرم ﷺ کی خوش مزاجی کے دو خوبصورت واقعات

مسکراہٹ اور تبسم تھکے ہارے اور پریشان حال انسان کے لیے بام کی طرح کام کرتی ہے ۔اس لیے نبی کریم ﷺ نے مسکراہٹ کو صدقہ قرار دیا۔خوش مزاجی اور خندہ پیشانی مومن کی خصلت میں شامل ہیں۔رسول کریمﷺ اپنے اہل خانہ، امہات المومنین رضی اللہ عنہما اور صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ خوش مزاجی  سے پیش آتے۔ بقول شاعر

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

(احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)

ڈاکٹر محمد حمیداللہ رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت طیبہ پر کتاب " محمد رسول اللہ ﷺ" سے نبی کریم ﷺ  کی خوش مزاجی کے بارے میں دو خوبصورت واقعات نقل  کئے جا رہے ہیں۔

کیا تم اپنا اونٹ میرے پاس فروخت کرنا چاہتے ہو؟

دوران سفر حضرت محمد ﷺ قافلہ کے ہر فرد کے ساتھ رابطہ رکھتے اور بار بار لوگوں کے پاس جاتے تاکہ وہ خوش رہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ ﷺ اپنے ایک وفا دار دوست حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے جو اپنے بوڑھے اونٹ پر سوار ہو کر جا رہے تھے۔ آنحضور ﷺ نے خود پر سنجیدگی طاری کر لی مگر کوئی بھی دیکھنے والا سمجھ سکتا تھا کہ آپ ﷺ مزاح فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا:

            "کیا تم اپنا اونٹ میرے پاس فروخت کرنا چاہتے ہو؟"

            "جی ہاں لیکن ایک شرط ہے کہ میں یہ اونٹ مدینہ منورہ جا کر ہی آپ ﷺ کے حوالے کروں گا ۔"

            " اس کی قیمت کیا لو گے؟"

            "آپ ﷺ ہی بتائیے "۔

            " ایک درہم میں فروخت کرو گے؟"

            " اے اللہ کے نبی ﷺ! کیا ﷺ مجھے لوٹنا چاہتے ہیں؟"

            " پھر دو درہم لے لو۔"

            " ہر گز نہیں۔"

            "پھر تین، چار، پانچ ۔۔۔۔۔۔۔" 

            محمد رسول اللہ ﷺ قیمت بڑھاتے گئے اور آخر فرمایا:

            "چالیس درہم"

            اس قیمت پر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی ہو گئے۔ پھر محمد رسول اللہ ﷺ نے کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور قافلے میں کسی اور شخص سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔

            مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ کو تمام ماجرا سنایا اور بتایا کہ سفر کے دوران کس طرح محمد رسول اللہ ﷺ سے خوش گوار گفتگو ہوئی تھی۔  حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کچھ زیادہ ہی محتاط تھیں۔ اس نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اصرار کیا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بات کو مزاح نہ سمجھیں بلکہ اونٹ محمد رسول اللہ ﷺ کے گھر لے جائیں۔ جب حضرت محمد ﷺ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ  مسکرائے۔ آپ ﷺ نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو 40 درہم ادا کر دئیے جائیں جبکہ اونٹ  بھی ان کی طرف سے بطور تحفہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا جائے۔ یہ اونٹ اس کے بعد بھی کئی سال تک حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہا۔ جب بھی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعے کو یاد فرماتے اور آنحضور ﷺ کے یاد گار تحفے کو دیکھتے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی یاد میں محو ہو جاتے۔  

یہ بھی پڑھیےنبی کریم ﷺ کے حکمت سےبھرپور فیصلے

اس غلام کو کون خریدے گا؟

سرور کونین حضرت محمد ﷺ مزاح پسند فرماتے تھے اور ہر کوئی اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔سردار دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی سادہ لوح تھا اور زیادہ خوش شکل نہیں تھا۔ ایک دن محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے مدینہ منورہ کے بازار میں دیکھا تو آپ ﷺ نے پیچھے سے اس کے پاس جا کر اسے اپنے بازوئوں میں جکڑ لیا اور قدرے اونچی آواز میں فرمایا "اس غلام کو کون خریدے گا؟"۔ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیچھے مڑا تاکہ یہ دیکھے کہ اسے کس نے بازوؤں میں جکڑا ہوا ہے۔ جب اس نے سرور کونین حضرت محمد ﷺ کو دیکھا تو وہ بہت ہی زیادہ  خوش ہوا۔ اس نے اپنی پشت آنحضور ﷺ کے سینے کے ساتھ دباتے ہوئے کہا۔ " یا رسول اللہ ﷺ! مجھے فروخت کر کے آپ ﷺ کو کچھ زیادہ رقم نہیں ملے گی۔" پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ  نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا، " لیکن رب تعالیٰ جل شانہ کی نظروں میں تمہاری قیمت بہت زیادہ ہے۔"

متعلقہ عنوانات