نام وہ میرا پکارے جا رہا تھا میں کہاں تھا
نام وہ میرا پکارے جا رہا تھا میں کہاں تھا
حادثہ یہ خوب صورت کب ہوا تھا میں کہاں تھا
ڈھونڈھتا میں پھر رہا تھا جس کو سارے شہر بھر میں
وہ تو میرے رو بہ رو بیٹھا ہوا تھا میں کہاں تھا
میری بازی کو پلٹنے کے لئے تیار تھے سب
سامنے میرے یہ سب کچھ ہو رہا تھا میں کہاں تھا
آج وعدے سے مکرتا پھر رہا ہے چھپ رہا ہے
اس نے سب کے سامنے وعدہ کیا تھا میں کہاں تھا
غم بھلانے کے لئے سب لوگ بیٹھے تھے وہاں پر
میرے جیسوں کے لئے ہی میکدہ تھا میں کہاں تھا
اب نہ شاید مل سکیں اک دوسرے سے یوں کبھی ہم
جاتے جاتے اس نے مجھ سے یہ کہا تھا میں کہاں تھا
میرا دامن کیوں رہا اعجازؔ خالی رحمتوں سے
جھولیاں اللہ سب کی بھر رہا تھا میں کہاں تھا