جانے ایسی ٹھان کر بیٹھا ہے کیا میرے لئے

جانے ایسی ٹھان کر بیٹھا ہے کیا میرے لئے
آج مانگے جا رہا ہے وہ دعا میرے لئے


مضطرب دل کو مرے آرام آ ہی جائے گا
کیجئے تجویز کوئی تو دوا میرے لئے


میری قسمت میں تو لکھے ہیں غموں کے سلسلے
خوش رہا کر تو نہ اپنا دل دکھا میرے لئے


حسن کی تابانیوں کو میں بھی تو دیکھوں ذرا
تو رخ زیبا سے یہ پردہ ہٹا میرے لئے


بھول جاتا ہوں سبھی کچھ یاد رہتا کچھ نہیں
بن گیا ہے ایک یہ بھی مسئلہ میرے لئے


ہجر آنسو مے کشی رنج و الم آہ و فغاں
یا الٰہی کیا یہی کچھ رہ گیا میرے لئے


سنگ دل مشہور تھا جو شہر بھر میں دوستو
مجھ کو حیرت ہے کہ وہ بھی رو پڑا میرے لئے


یہ قیامت کے مجھے آثار لگتے ہیں میاں
چلتے چلتے وہ اچانک رک گیا میرے لئے


تنگیٔ دامن سے میں اعجازؔ گھبرایا نہیں
کھول دے گا اور دروازے خدا میرے لئے


آج ساقی دیکھ کر اعجازؔ میری تشنگی
جام و ساغر لے کے گھر میں آ گیا میرے لئے