نہ یاد آیا نہ بھولا نہ سانحہ مجھ کو

نہ یاد آیا نہ بھولا وہ سانحہ مجھ کو
بنا گیا جو اک ایسا مجسمہ مجھ کو


کہ راستے میں کھڑا بت سمجھ کے چھوڑ گیا
تمام عمر کی یادوں کا قافلہ مجھ کو


میں سو رہی تھی اسی داستاں میں صدیوں سے
سلا گیا تھا جہاں میرا حافظہ مجھ کو


کسی قدیم کہانی کا اک چراغ ہوں میں
بجھا کے چھوڑ گئی طاق پر ہوا مجھ کو


پھر اٹھ کے نیند میں جاتی تھی اس طرف ہر شب
پکارتا تھا جدھر سے مرا پتا مجھ کو


مگر یہ ہوش نہ تھا لے کے جا رہا ہے کہاں
بکھرتی ٹوٹتی یادوں کا سلسلہ مجھ کو