نہ پوچھ کب سے یہ دم گھٹ رہا ہے سینے میں
نہ پوچھ کب سے یہ دم گھٹ رہا ہے سینے میں
کہ موت کا سا مزہ آ رہا ہے جینے میں
نہ جانے کیوں یہ تلاطم ڈبو نہیں دیتا
کہ ناخدا بھی نہیں اب مرے سفینے میں
قدم قدم پہ بچایا ہے ٹھوکروں سے مگر
خراش آ ہی گئی دل کے آبگینے میں
مہک رہی ہے صبا صبح سے نہ جانے کیوں
نہا کے آئی ہے شاید ترے پسینے میں
شمیمؔ ساحل و کشتی سے کچھ امید نہ رکھ
کوئی وقار نہیں اس طرح سے جینے میں