نہ مسجد ہے کوئی نہ چرچ ہے نہ کوئی مندر ہے

نہ مسجد ہے کوئی نہ چرچ ہے نہ کوئی مندر ہے
اگر گھر ہے کہیں اس کا تو تیرے دل کے اندر ہے


زمانے کی نظر کو وہ بھلا آئے نظر کیسے
نہ اس کا رنگ ہے نہ روپ ہے نہ کوئی پیکر ہے


پرندوں میں چہکتا ہے گلوں میں وہ مہکتا ہے
ہے اس کی ہی اداکاری جو یہ قدرت کا منظر ہے


میں ہندو ہوں مسلماں تم یہ ہیں انسان کی باتیں
وہ ہے خالق سبھی کا اس کے آگے سب برابر ہے


ہے اندازہ مجھے آگے سفر مشکل بہت ہوگا
مگر جب ہم سفر تو ہے تو پھر کس بات کا ڈر ہے