نہ جانے یہ کیسی ہوا ہو گئی ہے

نہ جانے یہ کیسی ہوا ہو گئی ہے
بجھا کے چراغوں کو وہ سو گئی ہے


ندی جو بہت بولتی تھی ہمیشہ
سمندر میں گر کے وہ چپ ہو گئی ہے


ہاں تھی خوب صورت بلا کی مگر وہ
کہاں جانے اس کی ہنسی کھو گئی ہے


ہمیں رات دیکھے ہے مجبور ہو کے
رلانے کو آئی تھی خود رو گئی ہے


گلی تھی اسی دل محلے میں میری
یہاں اک عمارت کھڑی ہو گئی ہے


دعا دی تھی اس نے جو لمبی عمر کی
سنو وہ دعا بد دعا ہو گئی ہے


حقیقت کی دنیا بڑی بے رحم ہے
وہ لوٹے گی لڑکی ابھی جو گئی ہے


ہاں رکھا تھا لکھ کے جو کہنا تھا اس سے
بہار اب کے آئی تو سب دھو گئی ہے


میری راہ میں پھول ہی پھول ہیں اب
اسے بونے کانٹے تھے کیا بو گئی ہے


نئی اک غزل لکھ کے لایا تو تھا میں
یہیں تو رکھی تھی کہاں کھو گئی ہے