دن بھر جانے کس کس سے یہ ملتا ہے
دن بھر جانے کس کس سے یہ ملتا ہے
جسم ہمارا شام کو تنہا رہتا ہے
تصویریں حیرت سے دیکھا کرتیں ہیں
کمرہ مجھ سے جان چھڑایا کرتا ہے
ساری امیدیں مجھ کو بیوہ لگتیں ہیں
لگتا ہے سارے جگ میں اندھیارا ہے
جب بھی حسن چمن میں دیکھا کرتا ہوں
سر میرا یہ بھاری ہوتا جاتا ہے
جس مورت کو دیکھ رہے ہیں سب کے سب
میں نے ہی یہ پتھر آج تراشا ہے
ایک ہی خواب تو میں نے دیکھا تھا یارو
خواب کوئی صدیوں تک چلتا رہتا ہے
دنیا مجھ کو پاگل پاگل کہتی ہے
اب میں پاگل ہو جاؤں گا لگتا ہے
آنکھوں کو تالاب بنا کر کے اپنی
اک بنجارہ سایہ دیکھا کرتا ہے