کاش کہ جو پہچانا ہوتا اپنوں کو بیگانوں کو

کاش کہ جو پہچانا ہوتا اپنوں کو بیگانوں کو
اشکوں سے پھر تھوڑے ہی بھرتے اپنے ہی پیمانوں کو


میرے دل کو سب نے سمجھا ایک کرائے کا کمرہ
جانے کتنے زخم دئے تھے میں نے بھی مہمانوں کو


پھول سا نازک رشتہ تھا وہ اب تم اس کو جانے دو
کانٹوں سے بھر رکھا تھا ہم نے اپنے گل دانوں کو


سارے گھر کی رونق تھا جو وہ بھی ہم کو چھوڑ گیا
کیوں گالی دیتے رہتے ہیں کمروں کو دالانوں کو


اب جب آگے ہی بڑھنا ہے مٹی ڈالیں ختم کریں
آخر کب تک ڈھوئیں گے ہم ان پیارے افسانوں کو


کشتی جب ہو بیچ سفر میں عشق سمندر صحرا کیا
منزل کی جانب اب دیکھو چھوڑو بھی طوفانوں کو


تہذیبیں تو یہ کہتی ہیں وصل کی خاطر ضبط کرو
ضبط سے ہوتا کیا ہی حاصل مار دیا ارمانوں کو


جنت میں بھی دوزخ کا ہی سوگ مناتے رہتے ہیں
خوشیاں راس نہیں آتیں ہیں ہم جیسے انسانوں کو


قتل نہ ہوگا تم سے میرا میں اپنا ہی دشمن ہوں
آگ لگا دو بندوقوں میں پھینکو تیر کمانوں کو