نہ جانے کب سے برابر مری تلاش میں ہے
نہ جانے کب سے برابر مری تلاش میں ہے
یہ کون خود مرے اندر مری تلاش میں ہے
وہ مجھ میں اور کسی کو تلاش کرتا ہے
جو میرے پاس بھی رہ کر مری تلاش میں ہے
گلا تھا جس کو کہ میں اس کا آئینہ نہ بنی
اب اپنے سائے سے تھک کر مری تلاش میں ہے
ابل پڑوں نہ میں اک دن کہیں کناروں سے
زمین ہوں میں سمندر مری تلاش میں ہے