نہ جانے کب جی تمہارا بہلے میں تنگ تم سے اب آ رہا ہوں
نہ جانے کب جی تمہارا بہلے میں تنگ تم سے اب آ رہا ہوں
کہ جتنے قصے بنے نہیں تھے زیادہ اس سے سنا رہا ہوں
بڑا ہی دشوار ہے سفر میں بھروسا قائم بنائے رکھنا
تمام دھوکے وہ کھا رہا ہے تمام دھوکے میں کھا رہا ہوں
یوں بھولے بن کے بھی کیا کرو گے چلو سکھاتے ہیں اک چالاکی
مجھے بدن تم ہی اپنا دے دو بدن میں دے کے ہی آ رہا ہوں
جو دیکھنا ہے تو دیکھ ہی لو ہے کتنی آسان یہ محبت
وہ مجھ سے پیچھا چھڑا رہی ہے میں اس سے پیچھا چھڑا رہا ہوں
لکھی گئی ہے نئی عبارت وہ سارا قصہ عجیب ہی ہے
سنائیں قصہ کہ جانے دیں ہم سنا رہا ہوں سنا رہا ہوں
جو تم سنو گے تو بور ہو گے طویل ہے یہ ہمارا قصہ
طویل قصے کو کر کے چھوٹا مٹا مٹا کے سنا رہا ہوں
جو راز کھولے تو دیکھ لینا ہے تم سے ہم کو وفا کی امید
وہ بات میری بتا رہا ہے میں بات اس کی بتا رہا ہوں
ہاں تم کو مجھ سے نہیں رہی ہے وہ پہلے جیسی حسیں محبت
تم اپنا حصہ نبھا رہی ہو میں اپنا حصہ نبھا رہا ہوں
نہ جانے کتنی ہی بار میں نے تھا تم کو الو بنائے رکھا
یقیں کرو گے یوں تم بھی کب تب چلو میں قصہ سنا رہا ہوں
تو بچے کر کے یہ فائدہ ہے یقیں برابر بنا ہوا ہے
وہ کھا رہی ہے تمام قسمیں تمام میں بھی تو کھا رہا ہوں
نہ جانے کیا ہے جو جل رہی ہے کہیں یہ اپنی ہی چیز تو نئیں
کیا آگ دل میں لگا رہے ہو ہاں آگ دل میں لگا رہا ہوں
یہ بات تم نے بھی سن رکھی ہے کہ کوئی ہم کو ہے تکتا رہتا
تبھی چھپا کے رکھی ہو ہم کو تبھی میں تم کو چھپا رہا ہوں
جو آگ ہوتی ہے تنہا رہنے کی آگ وہ تم وہ لگا رہے ہو
خدا کبھی تو سنے گا میری خدا کو اپنے بلا رہا ہوں
ہے بات کرنا ہی کام میرا تو کام کی بات کیا ہی ہوں گی
بتانی تھی یار یہ شروع میں لو جا کے اب میں بتا رہا ہوں
چھڑی ہوئی ہے وہ جنگ اپنی کہ کون جیتا کہ کون ہارا
وہ میرا پردہ گرا رہا ہے میں اس سے پردہ ہٹا رہا ہوں