منہ بند حسرتوں کو سخن آشنا کرو
منہ بند حسرتوں کو سخن آشنا کرو
توڑو سکوت ساز غزل ابتدا کرو
لاؤ کہیں سے سنگ ملامت ہی کیوں نہ ہو
یارو شکست شیشۂ دل کی دعا کرو
معصوم لغزشوں کی بہت داد مل چکی
اب آشنائے غیر کے طعنے سنا کرو
ہارے ہوئے خلوص پہ شرمندگی ہے کیوں
کس نے نہیں کہا تھا کہ دل کا کیا کرو
نادان ہو جہاں کا چلن دیکھتے نہیں
رسم جفا کو عام بہ نام وفا کرو
پھر کوئی جاں نواز بہانہ تراش لو
پھر کوئی دل فریب اچھوتی خطا کرو
مل جائے گا جمیلؔ کوئی زخم کوئی پھول
آؤ نہ تم بھی کوچۂ دل میں صدا کرو