منور ہو کے کتنی داستان عاشقی آئی
منور ہو کے کتنی داستان عاشقی آئی
جہاں تک ذکر غم آیا نظر میں روشنی آئی
تری اک اک نظر لے کر پیام زندگی آئی
مری جانب سے لیکن کب محبت میں کمی آئی
جبین شوق میں جب کوئی شان کافری آئی
تو استقبال کرنے ہر قدم پر بندگی آئی
یہ جان عاشقی ہے اس کو کس دل سے جدا کر دوں
نہ جانے کتنے غم سہہ کر تو مجھ تک بیکسی آئی
زہے قسمت کہ اس کو درد محرومی پسند آیا
محبت عیش دو عالم کو ٹھکراتی ہوئی آئی
یہ عالم ہے تو پھر ضبط محبت سے بھی کیا حاصل
زباں پر ان کا نام آیا کہ آنکھوں میں نمی آئی
کسی صورت میں ہو یہ دل کی نسبت چھپ نہیں سکتی
مرے رونے پہ آخر اک تمہیں کو کیوں ہنسی آئی