ممکن جہاں نہیں تھی وہاں کاٹ دی گئی

ممکن جہاں نہیں تھی وہاں کاٹ دی گئی
کچھ دن کی زندگی تھی میاں کاٹ دی گئی


مفلس جو تھے وہ پیاس کی شدت سے مر گئے
محلوں کی سمت جوئے رواں کاٹ دی گئی


میں نے بلند کی تھی صدا احتجاج کی
پھر یوں ہوا کہ میری زباں کاٹ دی گئی


تیری زمیں پہ سانس بھی لینا محال تھا
مجبور ہو کے زیست یہاں کاٹ دی گئی


میری سزائے موت پہ اک جشن تھا بپا
وہ شور تھا کہ میری فغاں کاٹ دی گئی


دست ہنر پہ نوک سناں پر غرور ہے
لیکن جری جو نوک سناں کاٹ دی گئی


پہلے تو بات بات پہ ٹوکا گیا مجھے
پھر تنگ آ کے میری عناں کاٹ دی گئی


ناصرؔ ہے راہ شوق میں مومنؔ کا معتقد
عمر رواں در عشق بتاں کاٹ دی گئی