مجھے سرے سے پکڑ کر ادھیڑ دیتی ہے
مجھے سرے سے پکڑ کر ادھیڑ دیتی ہے
میں ایک جھوٹ وہ سچے ثبوت جیسی ہے
میں روز روز تبسم میں چھپتا پھرتا ہوں
اداسی ہے کہ مجھے روز ڈھونڈھ لیتی ہے
ضرور کچھ تو بنائے گی زندگی مجھ کو
قدم قدم پہ مرا امتحان لیتی ہے
جو ایک پھول کھلا ہے سحر کی پلکوں پر
تمہارے جسم کی خوشبو اسی کے جیسی ہے
وہ روشنی جو ستاروں کا خاص زیور ہے
عمیق آنکھوں میں اکثر دکھائی دیتی ہے