مجھے آزاد کر دو نا سبھی پر سوز نالوں سے

مجھے آزاد کر دو نا سبھی پر سوز نالوں سے
مری اے خم زدہ قسمت دکھوں کی سخت چالوں سے


کہاں سے صبر لائیں ہم کہاں اب اور جائیں ہم
بہت ہی زخم پائے ہیں ارے ان حسن والوں سے


کسی کو سوچ کر کیسے کسی کی سوچ سے نکلیں
بہت بے چین رہتے ہیں کئی ایسے سوالوں سے


یہ ہم سے روٹھنے والے منائے اب نہیں جاتے
بہت اکتا گئے ہیں ہم منانے کے خیالوں سے


خدا کا خوف کھاؤ کچھ ڈرو اس ذات سے لوگو
مجھے اب مت ستاؤ نت نئی گہری یہ چالوں سے


کوئی نا مہرباں جب ہے بنے گا مہرباں کیسے
اسی الجھن میں الجھے ہیں گزشتہ آٹھ سالوں سے


کسی کا کورے کاغذ پر بنایا عکس تھا کاشفؔ
کہ خوشبو اب بھی اٹھتی ہے اسی کے کالے بالوں سے