اب مجھ کو درد سہنے کی عادت نہیں رہی

اب مجھ کو درد سہنے کی عادت نہیں رہی
یہ سچ ہے چاہ سے ابھی چاہت نہیں رہی


دو پل کا بھی سکون میسر نہیں مجھے
تڑپا ہوں یوں کہ چین کی حاجت نہیں رہی


دل سے لگا کے یاد کو عاجز ہوا ہوں میں
اب تیری یاد میں وہی راحت نہیں رہی


شکوے شکایتیں بھی کروں کس سے میں بھلا
جب خود میں دیکھنے کی بصارت نہیں رہی


ایمان داری سے تو وہی لوگ دور ہیں
کہتے ہیں جو یہاں کہ صداقت نہیں رہی


سب دکھ تمہارے سہہ لیے کاشفؔ خوشی خوشی
سہنے کی اور مجھ میں تو طاقت نہیں رہی