مجھ سے بازی لے گیا پھر با خدا میرا نصیب
مجھ سے بازی لے گیا پھر با خدا میرا نصیب
میں سسکتا رہ گیا ہنستا رہا میرا نصیب
زندگی کے نام پر جب زندگی مجھ کو ملی
امتحاں در امتحاں لکھا گیا میرا نصیب
میں تو رشتوں کی تمازت سے جھلس کر رہ گیا
اور اس پر تیر کی صورت لگا میرا نصیب
کیا سمجھتا میں بھلا محدود ہوں اپنے تئیں
کہ سزا ہے یا کسی کی بد دعا میرا نصیب
حسرتوں نے لا کے پھینکا جب مجھے بازار میں
بولیاں لگتی رہیں بکتا رہا میرا نصیب
چاک پر کوزہ گری کے بعد اس خطاط نے
ہاتھ کی الجھی لکیروں پر لکھا میرا نصیب
جب کہیں گھیرا غموں کی آندھیوں نے با خدا
دلدلوں میں لے کے مجھ کو گر پڑا میرا نصیب
کب تلک پیتا رہوں اے زندگی میں جام غم
کب تلک مجھ سے رہے کا یوں خفا میرا نصیب
اک قدم میں نے اٹھایا توڑ کر زنجیر پا
بچھ گیا کانٹوں کی صورت جا بجا میرا نصیب
ہے سبب موج نسیمیؔ کی روانی کا یہی
دسترس میں جو نہیں میرے خدا میرا نصیب