بنا کے تاج محل خود اسے گراؤں گا
بنا کے تاج محل خود اسے گراؤں گا
محبتوں میں بغاوت ہے کیا دکھاؤں گا
قلم لگا کے عداوت کے پیڑ پودوں میں
جو شاخ صبر کا پھل دے وہی اگاؤں گا
اتر چکی ہے مری روح میں شب ہجراں
میں اس کو ہجر کی منکوحہ اب بناؤں گا
غموں کی آنچ پر آنسو ابال کر اپنے
میں اپنے ضبط کی قوت کو آزماؤں گا
چلا ہوں باد مخالف میں ایک مدت سے
نہ چھیڑو مجھ کو وگرنہ تمہیں رلاؤں گا
کرو نہ فکر ستاروں کی چال جو بھی ہو
اٹھا کے چاند چکوری کے پاس لاؤں گا
لگا کے سینے سے میں راستوں کے یہ پتھر
خزاں میں گیت بہاروں کے گنگناؤں گا
میں تشنگی کو مٹانے کے واسطے صحرا
لبوں سے تیرے میں یہ آبلے لگاؤں گا
بھنور کے پیروں میں حسرت کے باندھ کر گھنگھرو
گر اختیار میں ہوگا تو میں نچاؤں گا
میں ایک موج نسیمیؔ ہوں بستیاں دل کی
سراب دشت ترے سامنے بساؤں گا