محبت تو محبت ہی نہیں تھی
محبت تو محبت ہی نہیں تھی
حقیقت میں حقیقت ہی نہیں تھی
میں اس کی چائے کی پیالی تھی لیکن
اسے پینے کی جرأت ہی نہیں تھی
بچھڑنے کا بھی اک اپنا مزہ تھا
مگر مجھ میں یہ ہمت ہی نہیں تھی
برا مت ماننا پر سچ یہی ہے
تجھے میری ضرورت ہی نہیں تھی
کسے میں ڈھونڈھتی اپنی خوشی میں
تمہارے غم سے فرصت ہی نہیں تھی
ہمیں دل چاہیے تھا اس کو دولت
ہمارے پاس دولت ہی نہیں تھی
بچھڑنے کا خیال آتا بھی کیسے
ہمارے بیچ قربت ہی نہیں تھی
کہ ہم انمول تھے کہنے کی حد تک
ہماری قدر و قیمت ہی نہیں تھی
غزل میں جان رخشاںؔ کیسے آتی
ترے جذبوں میں شدت ہی نہیں تھی