محبت کا وعدہ نبھایا ہے میں نے
محبت کا وعدہ نبھایا ہے میں نے
زمانے کو نیچا دکھایا ہے میں نے
کہیں وقت اس کو نہ مسمار کر دے
محل آرزو کا بنایا ہے میں نے
وہ مجھ سے بھی آگے بڑھا جا رہا ہے
جسے پاؤں چلنا سکھایا ہے میں نے
زمانہ پہ چھایا ہوا تھا اندھیرا
اندھیرے میں دیپک جلایا ہے میں نے
مصیبت میں تم کیا مرا ساتھ دو گے
تمہیں بارہا آزمایا ہے میں نے
سفینہ اسی نے ڈبویا ہے میرا
جسے ڈوبنے سے بچایا ہے میں نے
بہار سخن مجھ سے منسوب کر دو
بیاباں کو گلشنؔ بنایا ہے میں نے