مکڑیوں نے وقت کی کر دیا کمال سا
مکڑیوں نے وقت کی کر دیا کمال سا
میرے گرد بن دیا الجھنوں کا جال سا
اس نئی صدی کا یہ کارنامہ خوب ہے
سکھ کا ایک لمحہ ہے دکھ کے ایک سال سا
پیٹھ پر لدا ہوا مسئلوں کا بوجھ ہے
بن گیا ہے آدمی آج کل حمال سا
دوستی کے وار سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
دل ہمارے سینے میں تھا کبھی جو ڈھال سا
فکر و فن کی تشنگی کس طرح بجھاؤں میں
بستی خیال میں لفظوں کا ہے کال سا
موسم بہار ہے پر ابھی کھلا نہیں
گلشنؔ حیات میں پھول بے مثال سا