دل میں جب شعلۂ احساس مچل جاتا ہے
دل میں جب شعلۂ احساس مچل جاتا ہے
موم کی طرح سے پتھر بھی پگھل جاتا ہے
کیسے کہہ دوں کہ یہ سورج ہے اجالوں کا امیں
شام ہوتے ہی اندھیروں میں جو ڈھل جاتا ہے
چند قطروں کی مرے دوست حقیقت کیا ہے
ظرف والا تو سمندر بھی نگل جاتا ہے
کیا ضروری ہے کہ شعلوں کو ہوا دی جائے
جس کو جلنا ہے وہ پھولوں سے بھی جل جاتا ہے
یہ سیاست کا ہے بازار یہاں پر یارو
کھوٹا سکہ بھی کھرے داموں میں چل جاتا ہے
وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں چہرے گلشنؔ
لوگ کہتے ہیں کہ آئینہ بدل جاتا ہے