محبت کا گلشن سجانے لگے ہیں

محبت کا گلشن سجانے لگے ہیں
ہم اپنی وفا کو نبھانے لگے ہیں


اٹھی تھی جو دیوار نفرت کی دل میں
اسے رفتہ رفتہ گرانے لگے ہیں


جھکا کر جو نظریں تھے خموش بیٹھے
وہی درد اپنا بتانے لگے ہیں


جنہیں پیار کے پھول ہم نے تھے بھیجے
وہی دل پہ خنجر چلانے لگے ہیں


خبر جن کو عیبوں کی اپنے نہیں ہے
وہی مجھ پہ تہمت لگانے لگے ہیں


انہیں کہہ رہا ہے زمانا یہ جوکر
جو رو کر کے سب کو ہنسانے لگے ہیں


ملے ہیں وہ جب سے مسافرؔ نہ جانے
مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے ہیں