محبت کا دیا ایسے بجھا تھا

محبت کا دیا ایسے بجھا تھا
ہوا کے دوش پر رکھا ہوا تھا


ستارہ ٹوٹ کر جب بھی گرا تھا
عجب دھڑکا سا دل کو لگ گیا تھا


عجب وحشت تھی تیرے آئنہ میں
جہاں ہر عکس ہی ٹوٹا ہوا تھا


لپٹ کر چاند سے رونے لگا تھا
ستارہ ٹوٹ کر ڈر سا گیا تھا


اسے تھی چاند تاروں کی طلب اور
ہمارے پاس تو بس اک دیا تھا


ہزاروں رنگ تھے اک آرزو کے
مگر مجھ کو تو اس نے خود چنا تھا


کسی عہد وفا کا ہاتھ تھامے
کوئی اک موڑ پر روتا رہا تھا


کسی کو دوش کیا دیں ڈوبنے کا
بھنور جو پاؤں سے لپٹا ہوا تھا


عجب بے فیض تھی یہ بھی محبت
بہاروں میں خزاں کا روپ سا تھا


ادھر سے دھوپ کو آنے نا دوں گا
تجھے کچھ یاد ہے تو نے کہا تھا


وہی تشنہ لبی آنکھوں میں صحرا
وہی مژگاں پہ اک آنسو دھرا تھا