محبت اپنا زائچہ نکلوانا چاہتی ہے
صبح اٹھتے ہی ضد کرتی ہے
اور مجھے دھونس دیتی رہتی ہے
اگر ایسا نہیں کیا
تو میں نفرت سے دوستی کر لوں گی
اور یہ دل جو ایک کونے میں سکڑا پڑا ہے
فریاد کرتا رہ جائے گا
مجھے اس پر ترس آتا ہے
تم جلدی سے میرا زائچہ نکالو
اور دیکھو
مجھے کب تک تمہارے ساتھ رہنا ہے
تم کب تک مجھے گھسیٹو گی
کب تک میں تمہاری قید جھیلوں گی
ہر چیز کی انتہا ہوتی ہے
مجھے اب اس خول میں نہیں رہنا
مجھے جانے دو