میاں کی جوتی

گوتم کا حلیہ بیان کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ پرکشش چہرہ، سانولا رنگ، لابنا قد اور جامہ زیب جسم لیکن عادات و اطوار کے لحاظ سے حد درجہ بدتمیز۔کسی کام سے مطلب نہ واسطہ۔اس کی نظروں میں نہ کوئی بڑا تھا نہ چھوٹا، نہ جونیر نہ سینیر۔ اس کی انھیں نازیبا حرکات کی وجہ سے دفتر کا ہر کارکن اس سے ہمیشہ بدظن ، کبیدہ خاطر اور نالاں رہتا تھا۔اس کی انتہائی بدتمیزی کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ دفتر کے اس شعبے کا صدر اس کا قریبی رشتہ دار تھا جس کی بنا پر اس کی ہر جائز ناجائز حرکات سبھی کو برداشت کرنا پڑتی تھی مگر ہر کوئی کمینگاہوں میں گھات لگائے بیٹھا رہتا اور مناسب موقع ملتے ہی اس پر حملآورہو تا مگر ہمیشہ صدر شعبہ اس کی ڈھال بن جاتا اور حملآور کے ہاتھ خفت، پشیمانی اور صدر کی گھڑکیوں کے سوا کچھ نہ لگتا۔ہر کوئی اس سے دل ہی دل کڑھتا مگر کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہ پاتا۔ ہر نہج پر ناکامی اور ذلت اٹھا چکنے کے بعد بیشتر لوگ بددعاؤں پر اکتفا کرتے مگر وہ بھی گوتم کی خوش قسمتی کے آگے بے اثر ثابت ہوجاتی۔ادھر کچھ دنوں سے حالات گوتم کے حق میں ایسے سازگار ہو گئے تھے کہ ہر کسی نے کمیں گاہوں سے باہر آکر ہتیار ڈال دیئے تھے مگر اب بھی اس کی طرف سے خار سبھی کے دلوں میں تھا۔بس انھیں انتظار تھاکسی تو مناسب وقت اور موقع کا۔
آج پورے دفتر میں ایک ہی خبر گرم تھی کہ ’ہڈ آفس سے ایک جونیر افسر مِس نندا دیویؔ کاتبادلہ اسی دفتر میں ہو گیا ہے‘۔تبادلے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی ترقی کے ساتھ تو کبھی بطور سزا مگر اس تبادلے نے تمام دفتر والوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی تھی کیوں کہ متبادل کے نام کے ساتھ جڑے لفظ ’مس‘نے سبھی کے دلوں میں گدگدی اور ایک عجیب طرح کا اشتیاق پیدا کر دیا تھا۔ ہر کسی نے اپنے تصور میں مِس نندا کی اچھی سے اچھی تصویر بنا لی تھی۔
مِس نندا کی جوائننگ کے ساتھ سب کے چہرے کِھل گئے۔وہ واقعی بہت حسین تھی۔ گوراچِٹا رنگ، بڑی بڑی نشیلی آنکھیں، آخروٹی رنگ کے گھنگھریالے بال اور دمکتا ہوا پرکشش چہرہ۔ہر کوئی اسی انتظار میں رہتاکہ کب مس نندا اسے کوئی کام سونپے تاکہ اس کی قربت حاصل کی جا سکے مگر چند دنوں میں ہی سب نے محسوس کر لیاتھا کہ وہ کافی سخت اور گھمنڈی قسم کی عورت ہے۔بے تکلفی اسے ذرا بھی پسند نہیں تھی۔اس کی نام نہاد ظاہری بدمزاجی کے زیر اثر گوتم کو اسی کے ہاتھوں بے عزت اور ذلیل کروانے کی منشا سے دفتر کے تین چار گوتم گزیدہ لوگوں نے آناً فاناً میں یہ پلان بنا لیا کہ گوتم کی طرف سے ایک محبت نامہ ٹائپ کر کے مس نندا کی غیر موجود گی میں اس کی میز پر رکھ دیا جائے۔اگر اس موقع پر بھی ’بڑے صاحب‘ نے گوتم کی اس بے جا حرکات کی پردہ پوشی کی کوشش کی تو وہ بھی خاصے ذلیل ہوں گے۔گوتم اور ’بڑے صاحب ‘سے جلے بھنے لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کا مستحکم ارادہ کر لیا تھا۔
اَگلی صبح مس نندا کے دفتر پہنچے سے قبل ہی ان لوگوں نے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنادیا اور مس نندا کی آمد اور بعد کے تماشے کا انتظار کرنے لگے۔تقریباً پندرہ منٹ کے بعد ان کے کمرے کی گھنٹی بجی، حالات سے نابلد گوتم کے علاوہ ان سبھوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں جو لوگ اس حرکت میں ملوس تھے۔ ہُوا وہی جس کا سب کو انتظار تھا۔ مس نندا کے کمرے سے نکل کر چشراسی نے گوتم کو اطلاع دی کہ ’’صاحب نے آپ کو سلام کہا ہے‘‘ اور گوتم بے دھڑک ان کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ ہر کوئی دم بخود مس نندا کے کمرے کے دروازے کی طرف تجسس بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔تقریباً دس منٹ کے بعد گوتم دوفائلیں اور چند دفتری کاغذات کے ساتھ مس نندا کے کمرے سے برآمد ہوا اور سیدھا اپنی میز پر جا کر کام میں مشغول ہو گیا۔ تماشے کے منتظر لوگ کبھی گوتم کو دیکھتے، کبھی مس نندا کے کمرے کی طرف تو کبھی ایک دوسرے کی طرف۔ان کے چہرے ہر قسم کے جذبات سے عاری تھے۔
شام پانچ بجے جب دفتر میں چھٹی ہوئی تو سب لوگ باہر نکلے۔ کچھ پیدل چل دیے تو کچھ نے اپنی سائکلیں اٹھائیں اور کچھ اپنا اسکوٹر اور موٹر سائکل اسٹارٹ کرنے میں مشغول ہو گئے۔ گوتم نے ابھی اپنا اسکوٹر اسٹارٹ بھی نہیں کیا تھا کہ ایک سریلی سی آواز نے اس کے کانوں میں امرت گھول دیا۔
’’مسٹر گوتم، آج میں گاڑی نہیں لائی ہوں۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو مجھے ٹیکسی اسٹینڈ تک لفٹ دے دیجیئے،پلیز۔‘‘ مس نندا نے مسکرا کر کہا اور گوتم کے اشارے پر اس کے اسکوٹر کی پچھلی سیٹ پر اچک کر بیٹھ گئی اور اسکوٹر ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ فراٹے بھرتا ہوا آفس کیمپس کے باہر نکل گیا۔