سلام روستائی
سفر مختصر ہو یا طولانی، ہر معقول شخص اس کے پرہیز کی کوشش ضرور کرتا ہے پھر بھی ریل گاڑیوں اور بسوں وغیرہ کی حالت کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سفر کرنا بیشتر افراد کے لیے ناگزیر ہے۔ ناقابل برداشت گرمی ہو یا ہڈیاں جما دینے والی ٹھنڈ، کسی بھی بس یا ریل گاڑی میں سکون سے بیٹھنے کی جگہ حاصل کرسکنا، کوشش سے زیادہ قسمت پر منحصر ہوتا ہے۔ عوام میں زیادہ تر ایسے افراد ملیں گے جو بسوں کی نسبت، ریل گاڑی کے سفر کوفوقیت دیتے ہیں۔
بسنت لال، آنکھیں بند کیے اپنی برتھ پر لیٹایہی سب سوچتا ہوا خود کو ان خوش قسمت لوگوں میں تصور کر رہا تھا جنھیں ریل گاڑی میں برتھ مل گئی ہو۔ یوں تو ممبئی سے شروع ہو کر اس کے گاؤں کے ریلوے اسٹیشن تک کا یہ سفر ریلوے ٹائم ٹیبل کے مطابق بتیس گھنٹوں کا تھا مگر بلا وجہ کی چین پُلِنگ اور گاڑیوں کی کراسنگ وغیرہ کی وجہ سے اسے گاڑی میں بیٹھے ہوے تقریباً پچاس گھنٹے گزر چکے تھے مگر اب تک اس کی گاڑی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ گاڑی کے اٹھارہ گھنٹوں تک لیٹ ہو جانے کے سبب وہ اس طولانی سفر سے بے انتہا اوب چکا تھا۔ پھر بھی اس کی دلی خواہش یہی تھی کہ کاش یہ گاڑی چار گھنٹے اور لیٹ ہو جاتی تو اچھا ہوتا کیوں کہ جس ریلوے اسٹیشن پر اسے اترنا تھا وہاں سے اس کے گاؤں تک کی مسافت چار کلومیڑکی تھی۔ ریلوے اسٹیشن سے گاؤں تک جانے کے لیے اسے یکے کا سہارا تھا۔ اگر گاڑی شب کے دوبجے اسٹیشن پر پہنچے گی تو اسے کم از کم چار گھنٹے تو پلیٹ فارم پر ٹہل گھوم کر ہی گزارنے ہوں گے جو بہر صورت اس طویل سفر سے زیادہ تھکا دینے والا ہوگا۔ اتنی رات گئے اس کے گاؤں تک جانے کے لیے کوئی سواری تو ملنے سے رہی۔ اسی لیے اس کی دلی خواہش تھی کہ یہ گاڑی چار گھنٹے مزید لیٹ ہو جاتی تو بہتر تھا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ گاڑی سوادوجے شب میں جب شاہ گنج کےُ سنسان اور ویران ریلوے اسٹیشن پر رُکی تو بسنت لال، جو کہ اپنے سامان پہلے ہی سمیٹ چکا تھا، بڑبڑاتا ہوا جلدی سے گاڑی سے اتر گیا کہ ’بیچارے ریلوے والے، ان کی قسمت میں شاید مسافروں کی دعائیں ہیں ہی نہیں۔‘ ریل گاڑی اس اسٹیشن پر دوتین منٹ ٹھہر کر چل دی اور پھر چہار سمت پہلے جیسا سناٹا پھیل گیا۔ بسنت لال نے اپنا سامان اٹھایا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک خالی بنچ کے پاس آکر سامان سمیت اس پر بیٹھ گیا۔ تکان اور سستی کے باعث اس پر نیند حاوی ہوتی جا رہی تھی مگر سامان چوری ہو جانے کے خوف سے اس نے سونا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بنچ پر بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندھا۔ ’بنارس سے لکھنؤ جانے والی میل بس کے آنے کا وقت تو ہو گیا ہے۔ وہ تین بجے بھور میں شاہ گنج پہنچتی ہے اور یہاں سے چھوٹنے کے بعد بمشکل تمام دس منٹ میں اس کے گاؤں تک پہنچادے گی۔مگر یہ کمبخت تو میل بس ہے۔ گاؤں کے چوراہے پر روکے گی ہی نہیں۔ ہاں اگر میں سلطانپور تک کا ٹکٹ لے لوں اور بس والے سے گذارش کروں تو وہ شاید مجھ پر ترس کھا کر گاؤں کے چوراہے پر بس رکوادے۔ دیکھا جائے گا، کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے؟یہاں پر تمام رات بیٹھے رہنے سے تو اچھا ہے کہ بس اسٹینڈ ہی چلا جاے۔‘ اور یہی سوچتے ہوئے اس نے ایک بار پھر سے سامان سمیٹا اور پیدل ہی بس اسٹینڈ کی طرف چل دیا۔ ریلوے اسٹیشن سے بس اسٹینڈ کا فاصلہ کوئی آدھے کلومیٹر کا تھا۔ وہ راستے بھر یہی سوچتا جا رہا تھا کہ ’یہاں سے گاؤں تک کا بس کا کرایہ صرف دو روپیہ ہوتا ہے مگر میل بس کی وجہ سے اسے ناحق اسّی روپے دینے ہوں گے۔ ایسا ہے کہ اگر میں بس کنڈکٹر کو دس روپے دے دوں تو وہ مجھے گاؤں کے چوراہے پراتار دے گا۔ اور اگر کنڈکٹر سخت مزاج ہوا تو شاید ہی میری بات مانے۔ ہو سکتا ہے کہ بس میں چڑھنے بھی نہ دے۔ خیر، دیکھا جائے گا۔‘
یہی سب سوچتا ہوا جب وہ بس ڈپو میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں زیادہ سنّٹا نہیں ہے بلکہ چارپانچ مسافر پہلے سے موجود تھے، جو شاید اسی بس کے منتظر تھے۔ ابھی اس نے اپنا سامان رکھا بھی نہیں تھا کہ روڈویز کی ایک لمبی سی بس دندناتی ہوئی ڈپو میں آکر کھڑی ہوگئی۔ جتنی دیر میں کنڈکٹر ڈپو کے دفتر میں جاکر اپنے اراؤل اور ڈِپارچر کا اندراج کرواتا، دوسرے مسافروں کے ہمراہ بسنت نے بھی اپنا سامان بس میں ٹھونسا اور دروازے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔ بس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔
دومنٹ بعد کنڈکٹر واپس بس میں چڑھا اور بس چل دی۔اس نے تمام مسافروں کو مخاطب کرتے ہوئے تقریباً چِلّا کر کہا۔
’’اس گاڑی میں کیول سُلطانپور اور لکھنؤ کے پیسنجر ہی بیٹھیں۔ یہ میل بس ہے۔ راستے میں اور کہیں نہیں رُکے گی۔ کادی پور یا سورا پورا بھی نہیں رکے گی۔ شاہ گنج سے جو پیسنجر بیٹھے ہیں وہ لوگ اپنا اپنا ٹکٹ بنوا لیں۔ کیول سلطانپور اور لکھنؤ۔‘‘
ایک مسافر نے کہاکہ ایک ٹکٹ لکھنؤ کے لیے بنادیجیے تو دوسرے نے سلطانپورکے لیے دوٹکٹ بنوانے کی خواہش ظاہر کی۔جب کوئی ٹکٹ بنوانے والا نہیں رہ گیا تو کنڈکٹر نے بس میں سوار مسافروں کی گنتی شروع کر دی۔ اس کی گنتی، ٹکٹ کی بِکری سے میل نہیں کھارہی تھی۔ ایک مسافر بڑھ رہا تھا۔ کنڈکٹر نے پھر چیخ کر کہا۔
’’گاڑی میں کون ہے جس نے ابھی تک ٹکٹ نہیں بنوایا؟ وہ ٹکٹ فوراً بنوا لے ورنہ پکڑے جانے پر گاڑی روکر اسے بیچ راستے میں اتار دیا جائے گا۔۔۔ارے گاڑی میں کون بغیر ٹکٹ ہے؟ کوئی بولتا کیوں نہیں جی؟سڑک سناٹی ہونے کے سبب بس پوری رفتار کے ساتھ دوڑی جا رہی تھی۔ بسنت کا گاؤں اب یہاں سے تقریباً آدھا کلومیٹر رہ گیا تھا۔
’’بس میں کون بنا ٹکٹ کے چل رہا ہے جی۔کوئی بولتا کیوں نہیں۔۔۔؟‘‘ کنڈکٹر نے تمام مسافروں کو گھڑکا تو بسنت نے کہا۔
کنڈکٹر بابو، ہمار ایک ٹھے ٹِکس بنائے دیو۔‘‘اتنا کہہ کر وہ جیب سے پیسے نکالنے لگا۔
’’ابھی تک سو رہے تھے کیا جی؟بولو، کہاں جانا ہے؟‘‘
’’آجم گڑھ جائے کے ہَو۔کَتنا بھیل؟‘‘یہ سن کر کنڈکٹر کا پارا ایکدم سے چڑھ گیا۔
’’بڑا کدہا ہے بے تو۔ ارے پاگل ای آجم گڑھ روٹ نہیں ہے۔ لکھنؤ روٹ ہے۔ کَبّے سے چِلائے رہا ہوں کہ کھالی سلطانپور اور لکھنؤ والے پسنجر بیٹھیں۔۔۔دھت تیری کی۔ ای پاگل، سالا دیہاتی۔۔۔گاڑی روکا ہو ڈائبر ساب۔ اتارا، ای گدہا کے ہیاں سون سان جنگل میں تب ایکر بُدّھی ٹھیک ہوئی۔ ‘‘ بس کے بریک چیخے اوروہ بس، بسنت کے گاؤں کے چوراہے پرایک جھٹکے کے ساتھ رُک گئی۔
’’چلا اترا۔ ساری رات ہیاں ٹھنڈک میں کوکوآتب تُہار بُدھی کھلی۔پاگل، دیہاتی، بے کوپھ ناہیں ت۔‘‘ اور بسنت سامان سمیٹ کر اپنے گاؤں کے چوراہے پر اتر گیا۔