فتح نامہ
اگر اس مقام کی چوحدی کا ذکر مقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک جانب ایسا بھیانک جنگل کہ جس سے روزروشن میں بھی انسان کا صحیح و سلامت گزر سکنا قرین قیاس نہیں اور دوسری جانب جوش سے ٹھاٹیں مارتا نیلگوں دریا۔ اس کے علاوہ حد نظر تک بے آب و گیاہ چٹیل ریتیلا میدان۔ دریا سے تقریباایک میل دور، تازہ اجڑی اور جلی ہوئی ایک عارضی بستی کے نشانات۔ دریا کے کنارے سے اس ریتیلے میدان میں جگہ جگہ ہزارہا انسانی لاشیں، ٹوٹے پھوٹے اسلحجات اور مرے اَدھ مرے جنگی گھوڑے، حد نگاہ تک نظر آرہے تھے۔ گُھپ اندھیرے میں چیخنے اور کراہنے کی بے شمار کرب ناک آوازیں۔ ایسا محسوس ہورہا تا تھا جیسے چند گھنٹے قبل یہاں پر حیوانیت کا وہ کھیل کھیلا گیا ہے کہ اگر مورخ کی رسائی یہاں تک ہو گئی تو رہتی دنیا تک یہ سانحہ انسانیت کے دامن پر وہ دھبا ہوگا جو اسے روزِ حشر تک شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ ان لاشوں سے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے بڑے خیموں اور چھولداریوں پر مشتمل لاکھوں آدمیوں کی ایک بہت بڑی تھی مگر وہ بھی عارضی بستی تھی۔ خیموں کے باہر جا بہ جا آتشی اَلاو روشن تھے۔ ان میں بیشتر پر مرغ، دُمبے اور دیگر جانور بریان کیے جا رہے تھے۔ الاوکی پیلی روشنی میں چہارسو شراب کے قرابے کھلے ہوے تھے اور نیم عریاں یہودنوں سے محفلِ رقص و نغمہ سجی ہوئی تھی۔ چند بڑے خیموں کے قریب اونچی اونچی تخت بندی نظر آرہی تھی، جنھیں گدّوں اور گاؤ تکیہ سے آراستہ کیا گیا تھا۔ ان پر آرام سے بیٹھ کرشراب نوشی کرتے ہوئے ، ناچ گانوں سے محظوظ ہو رہے۔ان میں سے چند خاص لوگوں کے ٹھاٹ باٹ سفاک فوجی افسروں جیسے تھے۔ رقص وسرور کی گہما گہمی میں وہ سب یوں مشغول تھے گویا انھیں گرد و پیش کی کوئی خبر ہی نہ ہو۔ ان کے اکثر فلک شگاف قہقہے، اس بھیانک فضاء کو اور ڈراؤنا بنا رہے تھے۔ ہر کوئی فتح اور مستی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک خیمے سے ایک شخص برامد ہوا اور تخت کے قریب آکر مودبانہ، بڑے افسر کو متوجہ کرنے کی غرض سے ہلکا سا خم ہوا۔ باوجود اس کے افسر کو اس کی مداخلت ناگوار گزری تھی ، اس کی طرف متوجہ ہوا۔ نووارد نے آہستہ آہستہ اس افسر سے کچھ کہا تو اس نے اپنی تمام توجہ ناچ گانے سے ہٹا کر اس کی طرف مبذول کر دی اور متفکرانہ انداز میں اپنے دیدے الوکی مانند نچاتے ہوے کہا’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ فتح کی خوشی میں تو میں بادشاہ سلامت کو اطلاع دینا ہی بھول گیا تھا، جب کہ یہ کام مجھے فوراً انجام دینا چاہئے تھا۔ خیر، پرچہ نویس کو حکم دو کہ وہ فوراً فتح نامہ مرتب کر کے عالییجاہ کی خدمت میں بغیر تاخیر روانہ کرے۔‘‘
’’مگر حضور، اندھیری رات، ہو کا عالم،راہ میں بھیانک جنگل اور درندے۔۔۔.؟‘‘
’’خاموش۔۔۔.! حکم کی تعمیل فوراً ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے اپنا پیالہ اٹھایا اور دوتین بڑے بڑے گھونٹ حلق کے نیچے اتارنے کے بعد پھر ناچ گانے میں مشغول ہو گیا۔
ایک نوجوان قاصد، تازہ دَم گھوڑے پر سوار، گھنے جنگل اور شب کی بیکراں سیاہی کا سینہ چیرتا ہوا برق رفتاری کے ساتھ دارالخلافہ کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ نہ آسمان پر چاند کا پتہ تھا نہ ستاروں کی ٹمٹماہٹ نظر آرہی تھی۔ کبھی کبھار بجلی کی چمک میں راستہ نظر آجاتا اور پھر پہلے سے بھی زیادہ سیاہی مسلط ہو جاتی تھی۔ شب کے سناٹے کو چیرتی ہوئی، کبھی کبھار جنگل سے کسی درندے کی آواز آتی تو بجائے خوف کے زندگی کے آثار محسوس ہوتے۔ نہ جانے کیوں آج جنگلی جانوروں کی آواز میں خوف و درندگی کی جگہ کرب اور بے چینی کا احساس ہو رہا تھا۔ ان سب کے باوجود، قاصد کی منزل صرف دارالخلافہ تھی۔
علی الصباح، اذان فجر کے ساتھ، درِ شہر وا کر دیے گئے ۔ خلاف معمول آج شہر میں چہل پہل کی جگہ سناٹے کی حکمرانی تھی۔ سڑکوں پر آدمیوں کی کثرت تو تھی مگر سب متفکر اور پریشان حال نظر آرہے تھے۔ دوکانیں اور بازار خلاف معمول، بند تھے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ہر نگاہ سوالیہ مگر زبان خاموش۔
دربار شاہی کا تویہ عالم تھا کہ یہاں بھی آج روز سے زیادہ بھیڑ بھاڑ تھی مگر رونق نام کو نہیں۔ بادشاہ، افسران اور درباری تک متفکر نظر آرہے تھے۔ سب کے ہونٹوں پر سکوت کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ان کی آنکھوں سے تھکان اور شب بیداری کے آثار صاف نمایاں تھے۔ ہر آنکھ محل شاہی کے صدر دروازے پر ٹکی ہوئی تھی۔ ہر کس و ناکس، کسی کا منتظر نظر آرہا تھا۔ بادشاہ سے لے کر عام آدمی تک، گھڑی دوگھڑی بیٹھتا تو کبھی متفکرانہ ٹہلتا نظر آتا۔ عام آدمیوں میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد، بادشاہ وقت کے حکم سے جنگ کو گیاہُوا تھا۔ بادشاہ کو اپنی فوج اورحاضرین کوپنوں کی خیریت درکار تھی۔
اس بیکراں سناٹے کو چیرتی، اچانک گھوڑے کے ٹاپوں کی آوازمحل شاہی کی فصیلوں سے ٹکرائی تو بمع بادشاہ، تمام مجمعے کی نگاہ شاہی محل کے صدر دروازے پر جاپڑیں۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی بتدریج قریب آتی آوازوں کے ساتھ ہر کس و ناکس کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں کہ ایک گُھڑسوار، رایت فتح کے ہمراہ صدر دروازے سے اندر داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر پورے مجمعے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور چاروں طرف فتح وظفر کے نعرے گونجنے لگے۔ وہ گھڑسوار، جس کی آنکھوں اور جسم کے ریشے ریشے سے تکان کے آثار صاف نمایاں تھے، بادشاہ اور دیگر موجود افسران پر اس نے کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ ادب شاہی کے مطابق ایک خادم نے آگے بڑھ کر اس کے تھکے گھوڑے کی لگام پکڑی اور دوسرے نے رایت فتح سنبھلا۔ وہ فوجی شان کے ساتھ چلتا ہوا بادشاہ کے روبہ رو ہوا۔ اس نے فتح نامہ وزیر کی طرف بڑھایا تو بادشاہ نے اسے بآواز بلند پڑھنے کا حکم جاری کیا۔ بادشاہ کی بائیں جانب ایک برجی پر کھڑے خادم کی طرف وہ فتح نامہ بڑھا دیا گیا۔ اس نے سلیقہ سے پرچہ کو کھولا اور بآواز بلند پڑھنا شروع کیا:
’’بادشاہ وقت کوان کی فوج کی کامیابی مبارک ہو۔ کل علی الصباح ہم لوگوں نے یکبارگی ہزارہا تیر مخالفین کی طرف پھینک کر اپنی طرف سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ مخالفین ، جو کہ نماز فجر کے لیے جا رہے تھے، ان میں سے تقریباً تیس افراد اور مختلف مقامات پر کھڑے ان کے سات عدد گھوڑے آن کی آن میں موقعہ واردات پر ہی ہلاک ہو گئے۔مُٹھی بھر افراد پر مشتمل ایک چھوٹے سے لشکر کے اتنے لوگوں کے جنگ کیے بغیر اچانک خاتمے سے ان کی فوجی طاقت گَھٹ گئی اور ہماری طرف فتح کے نقارے بج اٹھے۔
ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پاے تھے کہ ہم نے مبارزطلبی شروع کر دی مگر نماز فجر کی ادائیگی سے قبل ادھر سے جنگ کے لئے ایک بھی جوان آگے نہ بڑھا۔ نماز فجر کے بعد مخالف کا بزرگ و برتر سردار از خود گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جدال میں آیا اور جنگ کے عوض حق و باطل میں فرق بتاتے ہوے ہم لوگوں کو امن و سکون کے ساتھ جینے کی صلاح دی۔ اس کی تقریر اتنی پُراثر، حق بجانب اور دردناک تھی کہ ہمارے سپاہی اس کی مظلومی پر محو گریہ ہوگئے۔اس وقت تو ہم پر عجیب کشمکش طاری تھی جب اس سردار کی تقریر سے متاثر ہو کر ہماری فوج کا سب سے جانباز سردار اور ایک بڑے رسالے کے مالک نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور اپنے بیٹے اور غلام کے ہمراہ ادھر جا ملااور ان کی طرف سے جنگ کرنے لگا۔ چونکہ وہ ہماری فوج کے بڑے رسالے کا سردار تھا اور ہم اس کے ماتحت رہ چکے تھے، اس لیے ہم پر اس کا فطری خوف طاری تھا۔ نتیجتاً ہماری فوج بری طرح کٹنے لگی۔ یہ بڑا عجیب موقع تھا۔۔۔..! جب ہماری فوج کے ایک بڑے رسالے نے اس تنہا سردار کو گھیر کر مارا، تب کہیں جا کر اس کا کام تمام ہو سکا۔
یکے بعد دیگرے مخالف فوج کا ایک ایک جوان آتا رہا اور اسی انداز سے جنگ کرتا رہا جیسے وہ تنہا نہیں بلکہ ایک پوری فوج اس کے ساتھ ہو ۔ مخالف کے ایک ایک جوان کو مارنے کے لیے ہمیں اپنے سیکڑوں جوان قربان کرنے پڑرہے تھے۔ ان کے ہر جوان پر فتح پانے کے لیے ہمیں دھوکہ سے یا پھر ایک ساتھ یلغار سے کام لینا پڑتا تھا ورنہ جنگی اصول کے لخاظ سے تو ہم اپنی پوری فوج کٹوادیتے توبھی ان کے ایک جوان پر بھی فتحیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ ہم مخالف سردار کے بیٹے سے بھی خوف زدہ تھے مگر چونکہ وہ بخار کی وجہ سے بستر سے اٹھ سکنے کے لائق بھی نہ تھا، اس لیے ہم لوگ اس کی طرف سے بے فکر تھے، ورنہ وہ تن تنہا کچھ بھی کر سکنے کے لیے کافی تھا۔ نماز ظہر تک ایک ایک کر کے مٹھی بھر مخالف فوج کے تمام لوگوں کو ہم نے دھوکہ اور چال بازیوں سے ختم کر دیا۔ یہ آخری موقع تھا جب مخالف فوج کے سپہ سالار اور سردار بچ رہے تھے۔ مخالف فوج کا سپہ سالار میدان میں کیا آیا، گویا قیامت ہی آگئی۔ چند منٹوں بعد ہی میدان جنگ میں وہ تہلکہ پڑا کہ میدان میں مخالف فوج کا سپہ سالار تنہا نظر آرہا تھا۔وہ گھوڑے پر سوار دُلکی چال سے ایک سمت مخصوص کی طرف بڑے اطمینان سے رواں تھا۔ ہماری تمام فوج یا تو خیموں میں چھپی تھی یا کمیں گاہوں میں۔ لاکھ للکارنے، دھمکانے اور لالچ دینے کے باوجود ایک بھی سپاہی خیمے سے جھانکنے کو بھی تیار نہ تھا۔ بمشکل تمام ہمارے سپاہی دور سے تیر برسانے اور چھپ کر وار کرنے کو راضی ہوے۔ سپہ سالار پر چاروں طرف سے تیروں کی زبردست بارش شروع کردی گئی۔ سیکڑوں سپاہی کمیں گاہوں میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ ہم سب اپنے حق میں دعائیں کر رہے تھے۔ ہمارے پاس صرف دعاؤں کا سہارا تھا اور ہماری دعا قبول ہوئی ۔ سپہ سالار جب بڑے اطمینان سے، بے خبر سا، ایک کمیں گاہ کے قریب سے گزر رہا تھا تو ہمارے ایک سپاہی نے چھپ کر بڑی پھرتی سے اس کے سر پر ایک گرز گراں بار، رسید کر دیا۔ وار ایکدم نشانے پر بیٹھا تھا۔ سپہ سالار اس وار کی تاب نہ لا سکااور گھوڑے پر ڈگمگا گیا۔ ہمارے بہترین فوجیوں کے لیے یہ موقع اچھا ثابت ہوا۔ کسی نے نشانہ سادھ کر ایک تیر اس کی آنکھ پر مارادیا۔ ایک نے اس کے بازؤں پر تیغے کا ایسا وار کیا کہ اس کاوہ بازو قطع ہو گیا جس میں تلوار تھی۔ہماری فوج میں ہر طرف فتح کے نعرے بلند ہوگئے اور نقارے بج اٹھے۔ سپہ سالار کے گرتے ہی ہمیں اپنی کامیابی کے آثار صاف نظر آنے لگے۔
اب ہمارے سامنے آخری مرحلہ مخالف فوج کا سردار تھا۔ میدان میں آتے ہی اس نے وہ تہلکہ مچایا جو بیان سے باہر ہے۔ جب اس کی تلوار میان سے باہر نکلی توایسا محسوس ہوا جیسے بجلی کوند گئی ہو۔ اس کاہاتھ برق رفتار اور نگاہیں کسی بھوکے باز کی مانند تھیں۔ ان کے دوسرے جوانوں کی مانند، ان پر ایک ساتھ حملہ کرنے والی چال بھی ان کی طوفانی جنگ کے سامنے بونی ثابت ہوئی۔ ان پر حملہ آور ہونے کے بجاے ہمارے سپاہی جاے پناہ تلاش کر رہے تھے۔ میدان میں حد نگاہ تک لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھیں۔ چند لمحہ بعد پورا میدان صاف تھا۔
میدان میں ہر طرف الامان اور رحم کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ جب ہماری فوج ہر طرح سے لاچار اور ناامید ہو گئی تو ہم نے مخالف فوج کے سردار کو اﷲاور رسولؐ کا واسطہ دے کر اس سے ہاتھ روک لینے کی التجا کی۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری یہ چال کامیاب ہوئی اور اس نے تلوار روک لی۔ وہ منظر مجھے آخری سانس تک یاد رہے گا، جب اس سردار نے تلوار روکی تو اس کا تمام بدن غصہ سے کانپ رہا تھا۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس سردار کو بھر نگاہ دیکھ بھی سکتا۔ اﷲاور رسولؐ کی قسموں میں بندھے، جب اس سردار نے اپنی تلوار میان میں رکھ لی تب ہماری جان میں جان آئی اور ہم میں پھر سے جنگ کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ ہم نے اس پر دور سے تیروں کی بارش شروع کر دی مگروہ خاموش کھڑا رہا۔ پھر کیا تھا، ہماری تمام فوج اس پر ٹوٹ پڑی۔ جس کے پاس جو ہتھیار تھا، سب نے اس پر آزماے۔اس کے جسم پر دنیا کے تمام جدیدترین اسلحجات آزماے گئے۔ جن کے پاس کچھ نہ تھا انھوں نے سردار پر پتھر تک پھینکا مگر اﷲاور رسولؐ کی قسموں میں بندھا ہوا وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتا ہوا آخر کار گھوڑے سے گر پڑا۔ کئی لوگ اس کا سر قلم کرنے آگے بڑھے مگراس کی ہیبت سے ڈر کرپیچھے ہٹ گئے۔ بمشکل تمام ایک نے اس کا سراس وقت تن سے جدا کیاجب وہ سجدے کی حالت میں تھا، ۔۔۔. اور آپ کے نام پر ایک عظیم فتح کی مہر لگ گئی۔
عالی جناب کا مرتبہ اور بلند ہو۔ اب ایک بڑی فکر کا مقام یہ ہے کہ اس شریف ترین اور جانباز سردار کے اتنے دردناک انجام کی خبر جب عام ہو گی تو رعایا کے غصہ پر قابو پانا مشکل ہو گا۔ قوی اندیشہ اس بات کا ہے کہ آپ کی حکومت کے خلاف بغاوت بھی ہو سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں اس پر قابو پا سکنا ممکن نہ ہوگا۔ اس اندیشے سے نجات کے لیے آپ کی قیمتی صلاح درکار ہے۔ والسلام۔فقط۔ خادم۔۔۔.!۔‘‘
اس فتح نامے کو تمام درباری اور بادشاہ غور سے سن رہے تھے۔ دربار میں ہر طرف تحسین کی صدائیں بلند تھیں۔ بادشاہ کے چہرے پر خوشی سے زیادہ تفکر کے آثار تھے۔ تھوڑے عرصہ تک غور کرنے کے بعد اس نے پرچہ نویس کو لکھوانا شروع کیا:
’’مجھے تم بہادروں سے یہی امید تھی۔ میرا اگلا حکم یہ ہے کہ مخالف کے بچے ہوئے تمام افراد کو گرفتار کر لیا جاے۔ ان کے تمام مال و اسباب ضبط کر لیے جائیں۔ عورتوں کے سروں پر چادریں تک نہ چھوڑی جائیں۔ تمام عورتوں اور بچوں کو بے محمل اور کجاوا اونٹوں پر بٹھا کر مرحوم سردار کے بیمار بیٹے کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑیاں، کمر میں لنگر اور گلے میں خاردار طوق ڈال کر پاپیادہ مابدولت کے حضور پیش کیا جائے۔ میں بچے ہوے تمام افراد کا تماشہ بناؤں گااور پھران تمام لوگوں کو دارالخلافہ کے بھیانک ترین قیدخانے میں قید کروا دوں گا، جہاں ان کے ہمراہ یہ داستان بھی دفن ہو جاے گی۔ بات پرانی ہو جانے کے بعد لوگوں کے دل و دماغ سے اس کا اثر جاتا رہے گا۔ اس کے باوجود اگر کسی نے مرحوم سردار کے حق میں سر اٹھانے کی کوشش کی تو میں اسے بھی قتل کروا دوں گا۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جاے کہ تمام مرحومین کے سروں کو نیروں کی نوک پر نصب کر کے نقارۂ فتح و ظفر اور طبل و نقاروں کے ساتھ شاہ راہوں سے گھماتا ہوا دارالخلافہ لایا جاے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ میری نافرمانی کا نتیجہ کتنا بھیانک ہو سکتا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ عوال کے دلوں پر ہمارے دہشت ہمیشہ طاری رہے، جس کے سبب وہ کبھی سراٹھانے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ یہ جنگ میں نے کسی معمولی بادشاہ یا سردار کے خلاف نہیں جیتی بلکہ ایک مستحکم نظام پر فتح پائی ہے۔ آنے والا کل رسول ؐاسلام کی نہیں بلکہ میری سنت پر عمل کرے گا۔‘‘
دستخظ بمع مہر،بادشاہ اور خلیفہ وقت۔