مٹی کی پیالی
چکر کھاتی چرخی پر
گھوم کر تیرے ہاتھوں میں
پانی کے چند ہی قطروں سے
میں اپنے آپ سمٹ جاتی
کبھی گول رکابی کے جیسی
کبھی چپٹی کاسوں کی پیالی
کبھی گرم الاؤ اور ٹھنڈے جذبے
میں اپنے اندر سمو جاتی
میری قیمت تو نے کیا جانی
جب اعلیٰ کانچ کے برتن آئے
تو نے جھٹ سے مجھ کو توڑ دیا
میرے بھولے پیارے ساتھی رے
تو فرق نہ اتنا جان سکا
کاغذ کے نقلی پھولوں میں
اور نرم گلاب کی پتی میں