مسنگ مین

مِسنگ مَین
ہمارے اپنے مکان کی دیواروں پرمیری پسندکارنگ ابھی چڑھناشروع ہی ہواتھا کہ اسے دیکھ کر میرے بچّوں کی ناک بھوں سکڑگئی۔
بیٹابولا،’’پاپا!یہ کیسا رنگ کرارہے ہیں؟پلیزاسے روک دیجیے۔‘‘
’’ہاں،پاپا!یہ بالکل اچھّانہیں لگ رہاہے۔موُیاکوئی اورنیاکلر کرائیے۔‘‘
بیٹی بھی بول پڑی۔
’’کیوں؟‘‘اس رنگ میں کیاخرابی ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
پاپا،یہ بہت ڈل اوربھدّالگ رہاہے۔اس سے تومکان کی بیوٹی ہی خراب ہوجائے گی۔‘‘بیٹے نے خرابیاں گنوائیں۔
’’ہاں پاپا! سنی ٹھیک کہہ رہاہے۔یہ بہت ہی بے کارکلر ہے۔‘‘بیٹی نے تائید کی۔
’’نہیں،نہیں یہ رنگ اچھّا ہے۔یہی ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’کیاپاپا!آپ کا ٹیسٹ کیساہے؟دیکھئے یہ بالکل نہیں جچ رہاہے۔پلیز اسے روک دیجیے۔‘‘بیٹا زوردینے لگا۔
’’فارگوڈسیک پاپا۔اسے نہ کرائیے۔‘‘بیٹی بھی دباؤ ڈالنے لگی۔
’’نہیں ،یہی ٹھیک رہے گا۔مجھے اچھّالگتاہے۔‘‘میں اپنے فیصلے پراڑنے لگا۔
’’پاپاآپ توضد کرنے لگے۔‘‘بیٹا بولا۔
’’yes،آپ ضدکررہے ہیں پاپا!‘‘بہن نے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ہاں،میں ضدکررہاہوں،میں ضدّی ہوں اوراب وہی ہوگا جو میں چاہوں گا۔‘‘
میرالہجہ سخت ہوگیا۔
بچّے مایوس ہوکراندرچلے گئے۔
’’آپ ضد کررہے ہیں۔‘‘
یہ جملہ زہرمیں بجھے تیرکی طرح میرے احساس میں پیوست ہوگیا۔مراوجود جھنجھنااُٹھا۔
یکایک بہت سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آکرکھڑے ہوگئے۔میں نے اپنی حیثیت کے مطابق مکان کا پلاٹ اقرارکالونی میں لینا چاہامگر اسے سرسید نگرجیسے مہنگے علاقے میں خریدناپڑا۔
میں نے سفیدرنگ کی ماروتی پسندکی مگرگھرمیں سٹیل گرے کلرکی سنٹروآگئی۔
میں بچّوں کویونیورسٹی کے اسکول میں داخل کرناچاہتاتھا مگر وہ لیڈی فاطمہ میں داخل ہوگئے۔
ان سب میں ان کی مرضی موجودتھی۔یہی نہیں بلکہ ٹی وی،فرج،صوفہ،پلنگ ایک ایک چیز میں ان کی مرضی شامل تھی اُن کی ضِد چھپی ہوئی تھی۔
پھر بھی کہتے ہے ،میں ضدکرتاہوں،کہاں ہے میری ضد؟کدھرہے میری مرضی؟‘‘
میں اپنی ضداوراپنی مرضی تلاش کرنے لگا۔
تھوڑی دیربعدا ن کی ماں گھرسے باہرنکلی اورمیرے پاس آکر آہستہ سے بولی۔
’’کیوں بچّوں کا موڈخراب کررہے ہیں؟ان کی بات کیوں نہیں مان لیتے؟آخر اس مکان میں رہناتو انہیں کوہے۔ہم اب اور کتنے دنوں کے مہمان ہیں۔پھرکیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی پسند ان پرلادیں۔دونوں نئے مکان کو لے کر کتنے پرجوش تھے،کتنے خوش تھے۔مگر آپ کی ضد نے ان کے جوش وخروش،ان کی خوشی ومسرت سب پرپانی پھیردیا۔بے چارے اُداس وملول بیٹھے ہیں۔آپ نے یہ بھی سوچا کہ ان کی پڑھائی پراس کا کیااثر پڑے گا؟یہ رنگ کا چکر ان کی پڑھائی میں ضرور بھنگ ڈال دے گا۔خداکے لیے مان جائیے۔مہربانی کرکے کام کورکوادیجیے۔
بیوی نے ہمیشہ کی طرح والدین کا فرض اور بال ہٹ کا فلسفہ سمجھا کراوران کی پڑھائی کا واسطہ دے کر مجھے خاموش کردیا۔
میں نے کبھی نہیں چاہاکہ میرے بچّے اُداس ہوجائیں۔ ان کے چہرے کارنگ اُڑ جائے۔اُن کی آنکھوں کی چمک ماند پڑجائے۔ان کے دلوں میں یاس بھر جائے۔
اُن کی اُداسی کا ذکرسنتے ہی اُن کے اُداس چہرے میری آنکھوں میںآبسے۔
’’ٹھیک ہے۔تم لوگوں کی جومرضی ہو،کرو،اب میں کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘
ہمیشہ کی طرح یہ جملہ دہراکرمیں خاموش ہوگیا۔
بیوی خوش اور مطمئن ہوکربچّوں کوخوشخبری سُنانے چلی گئی اور میں حسبِ عادت اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔مجھے اپنابچپن یادآنے لگا۔
’’ابّا!ابّا!۔‘‘
’’کیاابّاابّاکی رَٹ لگارکھی ہے ،کچھ بولتا کیوں نہیں؟‘‘
’’ابّا میں گاؤں کے مدرسے میں نہیں پڑھوں گا۔میں شہرکے مشن اسکول میں جاؤں گا۔‘‘
’’کیاکہا!توتم مدرسے میں نہیں پڑھے گا۔مشن اسکول میں جاکرکرسٹان بنے گا!‘‘ خبردار جو دوبارہ وہاں جانے کی بات کی تو———
یکایک میرے ہونٹ سل گئے۔میرامنہ لٹک گیا۔میری آنکھوں کی چمک بجھ گئی۔
’’ابّا!ابّا!۔‘‘
’’پھرابّا!ابّا! تجھ سے کتنی بارکہاکہ توتوتلایامت کر۔سیدھی بات کیا کر۔‘‘
’’جی ابّا۔‘‘
’’بول کیاکہنا چاہتاہے؟‘‘
’’ابّا میں رنگین سائیکل لوں گا۔نیلی ہینڈل اور لال فریم والی،جس کے پہیے پتلے پتلے ہوتے ہیں۔‘‘
’’نہیں ہرکلس ٹھیک رہے گی۔وہ مضبوط ہوتی ہے۔‘‘
’’نہیں،میں تووہی لوں گا۔‘‘
’’میں نے کہہ دیانا کہ ہرکلس سائیکل آئے گی۔
’’نہیں،میں ہر کلس نہیں لوں گا۔مجھے تورنگین سائیکل چاہیے۔‘‘
چٹاخ۔
’’لے یہ رہی رنگین سائیکل۔دوبارہ ضدکی تویہ تیرے گال مارمارکراورلال کردوں گا۔‘‘
میں روتا ہواوہاں سے اُٹھ کراپنی کوٹھری میں چلاگیااوردیرتک لکھوری اینٹوں والی کوٹھری میں سسکتا رہا۔
رہ رہ کرمیرے دل میں یہ خیال آتارہاکہ ابّا میرے پاس آئیں گے اور میرے آنسو پونچھیں گے۔مجھے پچکاریں گے۔مگرابّا نہیں آئے۔ یہ خیال شایداس لیے آتارہاکہ ایک بار جب میں بیمارپڑاتھا توابّا ساری رات میرے پاس بیٹھے رہے۔میرے ماتھے پرپانی کی پٹی رکھتے رہے، مجھے تسلّی دیتے رہے۔
میں کچھ بڑاہواتب بھی میری بات نہیں سنی گئی۔میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھناچاہامگر ابّانے مجھے بہاریونیورسٹی میں داخل کردیا۔
میں نے اپنی پسندکی ایک لڑکی سے شادی کی خواہش کا اظہارکیاتوجواب میں ابّا کا چنگیزی لب و لہجے میں نادرنامہ آدھمکا۔
ماضی کی یادنے مجھے اور رنجیدہ کردیا۔میری اُداسی اورگہری ہوگئی،میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
’’آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟بچّوں کی خواہش کوپوراکرناتوماں باپ کا فرض ہوتا ہے۔ان کی ضدکے آگے تووالدین کوجھکناہی پڑتاہے۔آخر اولادکی خوشی میں ہی توماں باپ کی خوشی ہے۔اس میں بھلاپریشان اور اُداس ہونے کی کیا بات ہے——‘‘
مجھے محسوس ہوا جیسے میری بیوی میرے سرہانے کھڑی مجھے سمجھا رہی ہومگر وہ توکچن کے کام میں مصرو ف تھی۔
میرے جی میں آیاکہ میں دیکھوں کی میری اُداسی کا کوئی اَثر میرے بچّوں پر ہے یانہیں اورمیں اپنے کمرے سے اُٹھ کر اُن کے کمرے میں چلاگیا۔
دونوں بچّے ٹیلی ویژن پرکوئی مزاحیہ سیریل دیکھنے میں محوتھے۔میرے آنے کا انہوں نے نوٹس بھی نہیں لیا۔
میں اکثر اپنے بچّوں کوخوش کرنے میں اُداس ہوا۔اُن کی ضدپوری کرنے میں میرادل دُکھا۔میری انامجروح ہوئی۔میرے اندرشدیدخواہش جاگی کہ بچّوں کو میرے اندرکی کیفیت کا احساس ہو۔وہ مجھ سے میری اُداسی کا سبب پوچھیں۔افسوس کا اظہارکریں مگر وہ ہرباراپنی ضد کی کامیابی کی خوشی میں مجھے بھول گئے۔
میں خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس آگیا۔کچھ دیرتک میں چپ چاپ کمرے کی چھت کوگھورتارہا،پھرکمرے سے نکل کرباہرچلاگیا۔
رنگائی کارکاہواکام پھرسے شروع ہوچکاتھا۔دیوارپرکوئی اور رنگ چڑھ رہاتھااوروہ نیا رنگ پہلے والے رنگ کو مدھم کرتاجارہاتھا۔کچھ دیرتک میں ایک رنگ کو ہلکااوردوسرے کو گاڑھاہوتا ہوادیکھتارہا۔
پھرباہرسے اندرآگیا۔بچّے حسب معمول سیریل میں مصروف تھے۔بیوی کچن میں مگن تھی۔میں اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر لیٹ گیا۔
دیوارسے دونوں رنگ اُترکرمیری آنکھوں میں داخل ہوگئے۔
دونوں رنگ جگنوؤں کی طرح آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔اچانک میرے دیدوں میں میرا مکان اُبھرنے لگا۔
پہلے نیواُبھری۔
نیوسے میری ضرورتیں بھی اُبھریں جنھیں دفن کرکے نیوکھودی گئی تھی۔نیوکے بعد دیواریں اُبھریں۔
دیوراوں سے میری وہ خواہشیں بھی اُبھریں جنہیں دباکردیواریں اُٹھائی گئی تھیں۔
پھر چھت اُبھری۔
چھت سے وہ قرض بھی اُبھراجسے چھت تعمیرکرنے میں میں نے اپنے جسم و جان پرلاد لیاتھا۔
اورآخرمیں وہ رنگ اُبھراجسے دیواروں کے لیے میں نے پسندکیاتھا اور اِسی کے ساتھ وہ رنگ بھی اُبھرآیا جسے بچّوں کی ضد نے اُبھاراتھااورجودیوارسے اُترکرمیری آنکھوں میں داخل ہوکراپنارنگ دِکھارہاتھا۔
نیو،دیواریں،چھت،تینوں کھسک کر کہیں اور چلی گئیں۔آنکھوں میں صرف رنگ رہ گئے۔
رفتہ رفتہ ایک رنگ اُڑتاگیاپھیکاپڑتاگیا۔ اور دوسرا جمتاگیااورگاڑھاہوتاگیا۔
گاڑھے رنگ پرمیری نگاہیں مرکوزہوگئیں۔
یہ میرے بچّوں کا رنگ تھاجسے اُن کے بچپن کی ضد نے اُبھاراتھا،اس رنگ نے ایک بار پھرسے مجھے اپنے بچپن میں پہنچادیا۔میں اپنے اِردگِرداسے تلاش کرنے لگامگر مجھ میں وہ کہیں نہیں ملا،مجھے تووہ رنگ میرے ابّاکے پاس نظرآیا۔
میں مایوس اور اُداس ہوکراپنے بچپن سے باہرنکل آیا۔پھروہیں آگیاجہاں میں خود ابّابنا بیٹھاتھامگریہاں بھی ابّاوالارنگ مجھ میں نہیں تھا۔وہ رنگ تومیرے بچّوں کے پاس تھا۔
میں نہ وہاں تھااورنہ یہاں۔
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص224)