مری وفا مرا ایثار چھین لے مجھ سے

مری وفا مرا ایثار چھین لے مجھ سے
ہے کون جو مرا کردار چھین لے مجھ سے


یہ زندگی کوئی سو بار چھین لے مجھ سے
مگر نہیں کہ ترا پیار چھین لے مجھ سے


یہ وقت وہ ہے کہ قدموں میں بیٹھنے والا
یہ چاہتا ہے کہ دستار چھین لے مجھ سے


عطا ہو یا تو وہی دبدبہ وہی جذبہ
نہیں تو یہ مری للکار چھین لے مجھ سے


سوال کرتی ہے عمر رواں کہ ہے کوئی
جو میری تیزئ رفتار چھین لے مجھ سے


میں زیر سایۂ دیوار بھی ہوں خوف زدہ
کہ وہ نہ سایۂ دیوار چھین لے مجھ سے


مرا حریف کم اوقات چاہتا ہے وقارؔ
مرا اثاثۂ افکار چھین لے مجھ سے