مری اداسی مرے درمیان بند کرو
مری اداسی مرے درمیان بند کرو
کوئی سلیقے سے یہ عطر دان بند کرو
پڑھا رہا ہوں میں بچوں کو کربلا کا نصاب
تم اپنی تشنہ لبی کا بکھان بند کرو
ذرا سمجھنے کی کوشش کرو مرے اشکو
وہ آج خوش ہے تم اپنی زبان بند کرو
میں ایک شرط پہ راضی ہوں قید ہونے کو
اسی قفس میں مرا آسمان بند کرو
مجھے اکیلے میں کرنی ہیں خود سے کچھ باتیں
یہ میرا حکم ہے دیوارو کان بند کرو
غزل میں لانے سے غم اور بڑھ گیا ہے چراغؔ
شٹر گراؤ سخن کی دکان بند کرو