مرے جذبات رنگیں کی فراوانی نہیں جاتی

مرے جذبات رنگیں کی فراوانی نہیں جاتی
کہ آنکھوں سے ترے جلوے کی تابانی نہیں جاتی


فروغ حسن ہے یا میری نظروں کی یہ خامی ہے
بہ ہر صورت تری تصویر پہچانی نہیں جاتی


محبت آپ کی دل سے بھلا دوں کس طرح کیوں کر
بہ مشکل شے جو آئی ہو بہ آسانی نہیں جاتی


کہاں تو کھینچ لایا اے مذاق عاشقی مجھ کو
جہاں مجھ سے مری تصویر پہچانی نہیں جاتی


مجھے ترک تعلق پر نہ کر مجبور اے ناصح
خلاف عقل کوئی بات ہو مانی نہیں جاتی


تمہارے جور بے حد نے یہ بخشا ہے شرف مجھ کو
شکست دل کی بھی آواز پہچانی نہیں جاتی


کوئی صابرؔ سے دیوانے کو سمجھائے بھلا کیوں کر
پرستار جنوں کی چاک دامانی نہیں جاتی