عشق کی بربادیوں کا اک یہی حاصل سہی
عشق کی بربادیوں کا اک یہی حاصل سہی
تو نہیں اپنا تو تیرا غم شریک دل سہی
زندگی کو زندگی کی کچھ خوشی حاصل سہی
درد محرومی سہی یا سوز درد دل سہی
تو اگر ممکن نہیں تو غم بھی تیرا کم نہیں
ایک شے حاصل سہی اور ایک بے حاصل سہی
سامنے ان کے مگر پھر بھی نکل آتے ہیں اشک
کتنے ہی پردوں میں پنہاں راز سوز دل سہی
خیر ہو یا رب مرے عزم و یقیں کی خیر ہو
لاکھ احساس فریب دوریٔ منزل سہی
جستجو نے دوست آخر جستجوئے دوست ہے
رہرو راہ طلب گم کردۂ منزل سہی
اس کی ایک اک آن پر صابرؔ کے جان و دل نثار
اصطلاح عام میں مشہور وہ قاتل سہی