مرا سوال ہے اے قاتلان شب تم سے
مرا سوال ہے اے قاتلان شب تم سے
کہ یہ زمین منور ہوئی ہے کب تم سے
چراغ بخشے گئے شہر بے بصارت کو
یہ کار خیر بھی سرزد ہوا عجب تم سے
وہ ایک عشق جو، اب تک ہے تشنۂ تکمیل
وہ ایک داغ جو روشن ہے روز و شب تم سے
مری نمود میں وحشت ہے، میری سوچ میں شور
بہت الگ ہے مری زندگی کا ڈھب تم سے
مرے خطاب کی شدت پہ چیخنے والو
تمہارے لہجے میں گویا ہوا ہوں اب تم سے
شکستہ رشتوں کی ہاتھوں میں ڈور تھامے ہوئے
میں پوچھتا ہوں مرے دوستو سبب تم سے
تمہارے نام کی تہمت ہے میرے سر پہ نبیلؔ
جدا ہے ورنہ مرا شجرۂ نسب تم سے