ملے ہیں نقش پا ان کے جہاں تک

ملے ہیں نقش پا ان کے جہاں تک
اجالا ہی اجالا ہے وہاں تک


دھندلکے ہی دھندلکے دور تک ہیں
وہ عالم ہے زمیں سے آسماں تک


بڑھیں گے ہاتھ جب بھی ظلمتوں کے
نہ اٹھے گا چراغوں سے دھواں تک


حقیقت جانتی ہے جس کو دنیا
خیال و خواب ہے دنیا وہاں تک


اندھیرا ہی اندھیرا ہے ہر اک سو
امیدیں ساتھ ہیں لیکن کہاں تک


ملے گی کیا کسی رہرو کو منزل
بھٹکتا ہے امیر کارواں تک


یہ کن راہوں سے گزرے ساحرہؔ ہم
نہیں تھا سایۂ ابر رواں تک