چاہے ایک شب کی ہو دل کشی چراغوں کی

چاہے ایک شب کی ہو دل کشی چراغوں کی
پھر بھی خوب صورت ہے زندگی چراغوں کی


بستیوں کی تاریکی اب بھی ہے نگاہوں میں
کون بھول سکتا ہے دوستی چراغوں کی


ہم جلا کے نکلیں گے مشعل دل و جاں اب
کھو گئی اندھیروں میں روشنی چراغوں کی


آپ نے تو دیکھا ہے صبح کا حسیں منظر
آپ نے نہیں دیکھی بے بسی چراغوں کی


زندگی کی راہوں میں دور تک اندھیرا ہے
اور سب کے ہونٹوں پر بات تھی چراغوں کی


جب بھی آ نکلتے ہیں کچھ ہواؤں کے جھونکے
لو لرزنے لگتی ہے نقرئی چراغوں کی


کتنے ماہتاب اپنی رہ گزر میں ہیں لیکن
ساحرہؔ ضرورت ہے آج بھی چراغوں کی