ملا نہ کھیت سے اس کو بھی آب و دانہ کیا
ملا نہ کھیت سے اس کو بھی آب و دانہ کیا
کسان شہر کو پھر اک ہوا روانہ کیا
کہاں سے لائے ہو پلکوں پہ تم گہر اتنے
تمہارے ہاتھ لگا ہے کوئی خزانہ کیا
فضا کا حبس کسی طور اب نہیں جاتا
کہ تلخ دھوپ کیا موسم کوئی سہانا کیا
تمام طرح کے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں
میاں مذاق گرہستی کو ہے چلانا کیا
گناہ کچھ تو مجھے بے طرح لبھاتے ہیں
یہ راز کھول ہی دیتا ہوں اب چھپانا کیا
ہو دشمنی بھی کسی سے تو دائمی کیوں ہو
جو ٹوٹ جائے ذرا میں وہ دوستانہ کیا
خبر نویس نہیں ہوں میں ایک شاعر ہوں
تمام مصرعے ہیں میرے نیا پرانا کیا
نہ دھر لے روپ کبھی جھونک میں تلاطم کا
وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانا کیا
کرو تو منہ پہ ملامت کرو مری سوربھؔ
یہ میری پیٹھ کے پیچھے سے پھسپھسانا کیا