میزان فن پہ رکھ کر سانچے میں ڈھالتے ہیں

میزان فن پہ رکھ کر سانچے میں ڈھالتے ہیں
چشم غزل سے شاعر کاجل نکالتے ہیں


دامن پہ داغ ان کے ہم نے انہیں کے دیکھے
کیچڑ جو دوسروں پر اکثر اچھالتے ہیں


اپنوں نے تو گرایا ہر بار ہر ڈگر پر
احساں ہے دشمنوں کا ہم کو سنبھالتے ہیں


بیمار خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہی
انسان الجھنوں میں کیوں خود کو ڈالتے ہیں


سنجیدہ ہو کے کب وہ باتیں مری سنیں گے
کیا کہہ رہے ہو کہہ کر اکثر جو ٹالتے ہیں


غالبؔ سا میرؔ جیسا انداز کب ملے گا
الفاظ کے سمندر ہم بھی کھنگالتے ہیں


شیشے کے گھر ہیں جن کے اکثر یہاں وہ ثانیؔ
پتھر ہماری جانب پھر کیوں اچھالتے ہیں