میرے حق میں نہیں حالات نہیں مانتی میں
میرے حق میں نہیں حالات نہیں مانتی میں
گردش وقت تری بات نہیں مانتی میں
ایک پیادے کی یہ اوقات نہیں مانتی میں
بادشاہوں کو بھی دے مات نہیں مانتی میں
زندگی جیسے گزرتی ہے وہ دل جانتا ہے
زندگی کو تری سوغات نہیں مانتی میں
ساتھ دینا ہے تو پھر ہاتھ بھی دینا ہوگا
دو کناروں کی طرح سات نہیں مانتی میں
یہ تو جگنو کی چمک سے بھی سہم جاتی ہے
سر کشیدہ ہے بہت رات نہیں مانتی میں
رنگ اور نسل سے دل کا نہیں رشتہ کوئی
عشق کی بھی ہو کوئی ذات نہیں مانتی میں
جس سے آنگن میں مرے پھول نہیں کھل سکتے
ایسی برسات کو برسات نہیں مانتی میں
ہاتھ ملتے ہیں مگر دل نہیں ملتے شبنمؔ
ایسے ملنے کو ملاقات نہیں مانتی میں