Shaheen Abbas

شاہین عباس

شاہین عباس کے تمام مواد

34 غزل (Ghazal)

    صبح وفا سے ہجر کا لمحہ جدا کرو

    صبح وفا سے ہجر کا لمحہ جدا کرو منزل سے گرد، گرد سے رستہ جدا کرو اک نقش ہو نہ پائے ادھر سے ادھر مرا جیسا تمہیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو شب زادگاں! تم اہل خبر سے نہیں سو تم! اپنا مدار اپنا مدینہ جدا کرو یاں پے بہ پے جو خواب کھلے نے بہ نے کھلے جتنا جدا یہ ہو سکے اتنا جدا کرو میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے

    دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے یہ سیدھا جل چکا الٹا جلانا رہ گیا ہے ہمیں سامان پورا کر نہیں پائے کہ چلتے سو رہتے رہتے اس جنگل سے جانا رہ گیا ہے سر کوہ ندا یہ پہلی پہلی خامشی ہے کوئی آواز ہے جس کا لگانا رہ گیا ہے یہ دو بازو ہیں سو تھوڑی ہیں کھولوں اور بتا دوں مرے اطراف میں ...

    مزید پڑھیے

    میں دنیا کی خاطر ہوں دل ہونے والا

    میں دنیا کی خاطر ہوں دل ہونے والا مرا عہد ہے مستقل ہونے والا خدا ایسا تنہا کسی کو نہ رکھے کوئی بھی نہ ہو جب مخل ہونے والا پس آب و گل میں دکھا بھی چکا ہوں تماشا سر آب و گل ہونے والا سفینے بھرے آ رہے ہیں برابر ہے دریا کہیں منتقل ہونے والا وہی ایک ہم ہیں وہی ایک تم ہو یہ عالم نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نقش کرتا رم و رفتار عناں گیر کو میں

    نقش کرتا رم و رفتار عناں گیر کو میں کیسا چھنکاتا ہوا چلتا ہوں زنجیر کو میں غیب و غفلت کا ادھر جشن منا لوں تو چلوں ابھی تاخیر سمجھتا نہیں تاخیر کو میں خامشی میری کچھ ایسی ہدف آگاہ نہیں بات بے بات چلا دیتا ہوں اس تیر کو میں ساتواں دن مگر اچھا نہیں گزرا میرا چھ دن الٹاتا رہا پردۂ ...

    مزید پڑھیے

    کیسا کیسا در پس دیوار کرنا پڑ گیا

    کیسا کیسا در پس دیوار کرنا پڑ گیا گھر کے اندر اور گھر تیار کرنا پڑ گیا اس کنارے نے کہا کیا کیا کہوں کیا بات تھی بات ایسی تھی کہ دریا پار کرنا پڑ گیا پھر بساط خواب اٹھائی اور اوجھل ہو گئے شام کا منظر ہمیں ہموار کرنا پڑ گیا اک ذرا سا راستہ مانگا تھا ویرانی نے کیا اپنا سارا گھر ...

    مزید پڑھیے

تمام