مت پوچھ میرے جاہ کو حشمت کو کیا ہوا

مت پوچھ میرے جاہ کو حشمت کو کیا ہوا
حیران خود ہوں میں مری قسمت کو کیا ہوا


کیوں دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدل گئی
ہر شے کی ایک دم سے یہ حالت کو کیا ہوا


انسانیت کے شاہ اخوت کے تاجور
ان سب کے حسن خلق کی عادت کو کیا ہوا


اس کے خصال نیک کا شہرہ تھا چار سو
اب اس حیا و شرم کو غیرت کو کیا ہوا


لاتے تھے چن کے لوگ عقیدت کے پھول جو
نہ جانے آج ان کی عقیدت کو کیا ہوا


ملتے ہیں مجھ سے دوست بھی اغیار کی طرح
کوئی بتائے ان کی مروت کو کیا ہوا


محسنؔ کبھی جو کرتا تھا مجھ پہ نثار جاں
اب سوچتا ہوں اس کی محبت کو کیا ہوا